حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ رب العزت نے ایک الگ ہی مرتبے اور مقام سے نوازا تھا۔ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی فہم و فراست کے لیے اللہ کے حبیب سرکار دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی تھی۔ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت تھی کہ آج بھی شیر خدا کی فہم و فراست کے چرچے پوری دنیا میں ہیں۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں علم کا شہر اور علی اس کا دروازہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی لوگ اپنی مشکلات کا حل جاننے کے لیے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے رجوع کیا کرتے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے فرزند کو وصیت فرمائی تھی۔ جن کو ہم ایک کامیاب زندگی کے اصول بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ باتیں یہ ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے فرزند حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا چار باتیں یاد رکھو ان کے ہوتے ہوئے جو کچھ کرو گے وہ تمہیں ضرر نہ پہنچائے گا۔
فرمایا: سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے، سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے، سب سے بڑی وحشت غرور خود بینی ہے اور سب سے بڑا جوہر ذاتی حسن اخلاق ہے۔ اے فرزند بے وقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا تو نقصان پہنچائے گا۔
اسی طرح بخیل سے دوستی نہ کرنا کیونکہ جب تمہیں اس کی مدد کی انتہائی ضرورت ہوگی تو وہ تم سے دور بھاگے گا۔ بدکردار سے دوستی نہ کرنا وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ سراب کی مانند تمہارے لیے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کر کے دکھائے گا۔