ایک زندہ شخص پر قبر کے عذاب کا سچا واقعہ

ایک زندہ شخص پر قبر کے عذاب کا سچا واقعہ

بیان کیا جاتا ہے کہ چند سال قبل ایک جماعت مانسہرہ سے آگے ایک چھوٹے سے قصبے میں گئی۔ اس جماعت میں ایک شخص ڈاکٹر نور محمد تھا۔ ان کا بیان ہے کہ مسجد سے باہر ادھر ادھر کافی لوگ فارغ بیٹھے تھے۔

ہم لوگ ان کے پاس گئے اور مسجد میں آنے کی دعوت دی۔ تاکہ وہ تعلیم میں شریک ہو سکیں۔ کچھ لوگ ہمارے ساتھ مسجد میں آنے پر تیار ہو گئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ میں نماز کے وقت آؤں گا اور نماز کے بعد عذاب قبر کا ایک واقعہ آپ لوگوں کو سناؤں گا۔ چنانچہ ظہر کی نماز کے بعد یہ شخص ہمارے پاس بیٹھ گیا۔

اپنا تعارف کروایا کہ وہ ریٹائرڈ فوجی نوجوان تھا۔ اس فوجی کا بیان ہے کہ ١٩٦٥ کی جنگ میں ایک قبر میں اسلحے کا ایک عارضی ذخیرہ یعنی ایک کیمپ لگایا گیا تھا اور کچھ نوجوانوں کے ساتھ اس فوجی کی ڈیوٹی تھی۔ دن کا وقت تھا اور کوئی خاص کام نہیں تھا۔ چنانچہ اس نے قبرستان میں گھومنا شروع کر دیا۔

اس کا گزر ایک پرانی قبر کے پاس سے ہوا۔ تو یوں محسوس ہوا جیسے قبر کے اندر سے ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز آ رہی ہے۔ اس فوجی جوان نے بتایا کہ میں نے بندوق کے بٹ کے ساتھ قبر کی اینٹیں ہٹائیں تاکہ دیکھے کہ یہ آواز کیسی ہے۔ جیسے جیسے میں مٹی ہٹاتا گیا۔ آواز اور تیز ہوتی گئی اور میری دلچسپی اور خوف بھی بہت بڑھتا گیا۔

دن کا وقت تھا روشنی خوب پھیلی ہوئی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ قبر کے اندر انسانی ہڈیوں کا ڈھانچہ پڑا ہوا ہے اور اس پر چوہے کی شکل کا ایک جانور بیٹھا ہوا ہے۔ اور جب وہ منہ اس ڈھانچے کے اوپر مارتا ہے۔ تو سارا ڈھانچہ اکڑ جاتا ہے اور ہڈیوں کے ٹوٹنے اور چٹخنے کی آواز آتی ہے۔ میرے سامنے اس جانور نے تین مرتبہ اپنا منہ ہڈی پر مارا۔

مجھے بہت ترس آیا کہ یہ جانور اس کو بہت تکلیف پہنچا رہا ہے۔ چنانچہ رائفل سے جب میں نے اس جانور کو مارنے کا ارادہ کیا تو وہ مٹی میں چھپ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ جانور قبر سے نکل کر میری طرف لپکا اور میرے اوپر ایسی دہشت سے سوار ہوا کہ میں اسے مارنا بھول کر اپنی جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑا ہوا۔

کافی دور جانے کے بعد میں نے مڑ کر دیکھا وہ جانور میرے پیچھے تیزی سے بھاگا آ رہا تھا۔ قریب ہی پانی کا ایک گڑھا تھا۔ اس جانور سے بچنے کے لیے میں اس جوہڑ یعنی گڑھے میں داخل ہو گیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ جانور جوہڑ کے کنارے پر آ کر رک گیا ہے اور کچھ دیر کے بعد اس نے اپنا منہ پانی میں ڈال دیا۔ یکدم پانی کھولنے لگا۔ میں بھاگ کر جوہڑ سے نکلا۔ میری ٹانگیں جل رہی تھیں۔ بہت جلد سرخ ہو چکی اور آبلے پڑ چکے تھے۔

درد کی شدت سے میرا چلنا محال ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے ساتھی کو آواز دی۔ تو جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کچھ نہ تھا۔ بلکہ وہ جانور غائب ہو چکا تھا۔ چنانچہ مجھے ایبٹ آباد کے ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا اور پھر وہاں سے راولپنڈی کے بڑے فوجی ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ میری ٹانگوں کا گوشت گلنا شروع ہو گیا تھا۔

ہر وقت بدبو دار پیپ اور خون رستہ رہتا تھا۔ کسی علاج سے افاقہ نہیں ہوا۔ مگر مرض بڑھتا گیا۔ جیسے جیسے دوائی لگتی رہی ویسے ویسے جسم سے گوشت علیحدہ ہوتا گیا۔ اس وقت دونوں ٹانگوں کی صرف ہڈیاں بچ گئی ہیں۔ گوشت آہستہ آہستہ گل کر علیحدہ ہو چکا ہے اور ہر وقت مردے کی سی بدبو آتی رہتی ہے۔

پھر اس شخص نے ہمیں اپنی دونوں ٹانگیں دکھائی۔ جن پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اللہ معاف فرمائیں۔ اللہ تعالی ہمیں قبر اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ آمین

سبق

اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے۔ بے شک بعض دفعہ اللہ تعالی لوگوں کی عبرت کے لیے دنیا میں ہی اپنے عذاب کا مشاہدہ کرا دیتا ہے۔ جیسا کہ اس واقع میں بھی آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ اللہ تعالی ہمیں اعمال صالح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Scroll to Top