مردہ عورتوں سے زنہ کرنے والے شخص کا واقعہ

murda sae zina ka waqia

امام زہری رحمتہ اللہ علیہ ناقل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ روتے ہوئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازے پر ایک نوجوان رو رہا ہے۔ جس نے میرا دل جلا دیا ہے۔

فرمایا عمر اسے اندر لے آؤ ۔وہ نوجوان روتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی۔ کہنے لگا یا رسول اللہ میرے گناہوں کا ڈھیر مجھے رلا رہا ہے اور مجھے جبار سے ڈر آتا ہے۔ وہ مجھ پر غضب ناک ہوگا۔ آپ نے فرمایا نوجوان کیا تو نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا ہے؟

عرض کیا نہیں۔ کیا تو نے کسی جان کو ناحق قتل کیا ہے؟ عرض کیا نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی تیرے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ اگرچہ سات آسمانوں سات زمینوں اور تمام پہاڑوں کے برابر ہوں۔ نوجوان بولا حضور میرے گناہ ساتوں آسمان، زمین اور پہاڑوں سے بھی بڑا ہوا ہے۔

آپ نے ارشاد فرمایا تیرا گناہ بڑا ہے یا اللہ؟ کہنے لگا میرا گناہ بڑا ہے؟ فرمایا تیرا گناہ بڑا ہے یا اللہ؟ اس نے کہا میرا گناہ بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا تیرا گناہ بڑا ہے یا تیرا اللہ؟ کہنے لگا ہاں البتہ میرا اللہ اور اس کا رحم بہت بڑا ہے۔

گناہ کا ارتکاب

پس ارشاد فرمایا کہ گناہ عظیم کو خدائے عظیم ہی معاف فرمائے گ۔ جو بہت ہی عفو و درگزر کرنے والا ہے۔ پھر فرمایا ذرا اپنا گناہ تو بتا۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے آپ سے حیا آتی ہے۔ آپ نے پھر پوچھا کہنے لگا میں کفن چور تھا اور سات سال تک یہی پیشہ کیا۔ ایک دفعہ انصار کی ایک لڑکی فوت ہوئی۔

میں نے اس کی قبر کھودی۔ کفن اتار کر چل دیا۔ ابھی تھوڑا دور ہی گیا تھا کہ شیطان نے مجھ پر غلبہ پایا اور میں نے لوٹ کر اس سے مجامعت کرلی۔ ابھی میں قبر سے نکل کر تھوڑی ہی دور گیا تھا. کیا دیکھتا ہوں۔ وہ لڑکی کھڑی پکار کر کہہ رہی ہے۔ اے نوجوان! تجھے قیامت کے دن جزا وہ سزا دینے والے سے حیا نہیں آتی۔ جس وقت وہ اپنی کرسی فیصلے کے لیے رکھے گا۔ اور ظالم سے مظلوم کا بدلہ دلوائے گا۔

تو مرنے والوں کے مجمع میں مجھے ننگا کر کے چل دیا ہے اور میرے اللہ کے روبرو مجھے با حالت جنابت حاضر ہونے پر مجبور کیا ہے۔ یہ سنتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھل کھڑے ہوئے اور اس کی گدی پر ایک تھپڑ رسید کیا اور فرمایا او فاسق تو تو بس آگ کے لائق ہی ہے۔ دفع ہو یہاں سے۔

توبہ

نوجوان وہاں سے نکلا چالیس راتوں تک اللہ کے حضور توبہ کرتا مارا مارا پھرتا رہا۔ چالیس راتوں کے بعد آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہنے لگا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدا، آدم اور ہوا کے معبود اگر تجھے میری توبہ منظور ہے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو اس کی خبر دے دے۔ ورنہ پھر آگ بھیج کر مجھے جلا دیں اور آخرت کے عذاب سے نجات دے دیں۔

اتنے میں جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے سلام کہا اور اللہ تعالی کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام پہنچایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ کیا مخلوق کو آپ نے پیدا کیا ہے؟ فرمایا مجھے بھی اور تمام مخلوق کو اسی نے پیدا فرمایا ہے۔ عرض کیا وہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ مخلوق کو رزق دیتے ہیں؟ فرمایا بلکہ مجھے بھی اور تمام مخلوق کو اللہ تعالی ہی رزق دیتے ہیں۔

عرض کیا وہ پوچھتے ہیں کیا بندوں کی توبہ آپ قبول کرتے ہیں؟ فرمایا بلکہ میری بھی اور تمام بندوں کی توبہ وہی قبول فرماتا ہے۔ پھر کہا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے میں نے اپنے بندے کی توبہ قبول کر لی ہے۔ آپ بھی اس پر نگاہ شفقت فرمائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نوجوان کو بلا کر اسے توبہ قبول ہونے کی بشارت سنائی۔

سبق

اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عقل مند آدمی کو اس سے سبق لینا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ زندہ کے ساتھ زنا کرنا مردے کے ساتھ زنا کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اس کی معافی کے لیے حقیقی اور سچی توبہ کرنی چاہیے۔

تو دیکھیے جب سچی توبہ پیش کی تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا اور یہ بھی ضروری ہے کہ جس حیثیت کا گناہ ہو توبہ بھی اسی درجے کی ہونی چاہیے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

Scroll to Top