شداد کی جنت

قوم عاد دنیا کی تاریخ کی ایک طاقتور قوم گزری ہے۔ یہ لوگ بہت ہی لمبے قد و قدامت کے تھے۔ اپنی طاقت کے بل بوطے سے یہ لوگ بہت جلد پورے یمن پر قابض ہو گئے۔ ان پر کئی بادشاہوں نے حکومت کی مگر دو بادشاہ ایسے آئے۔ جن کی حکومت عظیم اور جاہ و جلال والی تھی۔ ان میں سے ایک کا نام شدید اور دوسرے کا شداد تھا۔ یہ دونوں بھائی تھے اور انہوں نے اپنے زمانے میں بے شمار لشکر و خزانے جمع کیے تھے۔

یہ دونوں بھائی ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں سے تھے۔ ان کی کل حکومت عمان، یمن، عدن، اورشمالی عرب کے علاقوں پر تھی۔ جب شدید کی موت واقع ہوئی تو پوری حکومت شداد کو مل گئی۔ اس نے تمام قبائلی سردار اور بادشاہوں کو اپنا متی و فرمانبردار بنا لیا اور اس طرح پورے جنوبی عرب پر اس کی حکومت ہو گئی۔

یہی وجہ تھی کہدنیا کے دیگر ممالک کے بادشاہ اس کے باجگزار ہو گئے۔ اس تسلط اور غلبے نے اس کو اتنا مغرور اور متکبر کر دیا کہ اس نے خدائی کا دعوی کر ڈالا۔ اس وقت کے علماء اور پیغمبروں کے پیروکار نے اسے سمجھایا اور عذاب الہی سے ڈرایا۔ مگر وہ کہنے لگا “میرے پاس اب دولت و حکومت سب کچھ ہے، اب خدا کی عبادت کی ضرورت نہیں اور میں اب کسی کی اطاعت نہیں کروں گا”۔

شداد نے حضرت ہود علیہ السلام کی زبان سے یہ سن رکھا تھا کہ جنت کیسی ہوگی اور اس کی نعمتیں اور خوبصورتی کا کیا عالم ہوگا۔ اس لیے اس نے زمین پر جنت کی تعمیر کا ارادہ کیا۔ وہ کہتا تھا مجھے اس جنت کی ضرورت نہیں ہے، جو خدا نے بنائی ہے۔ ایسی جنت تو میں خود دنیا میں ہی بناؤں گا۔

لہذا اس نے سو معتبر افراد کو جمع کیا اور ہر ایک کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرر کیا اور پورے دنیا کے ماہرین کو عدن آنے کی دعوت دی۔ اس نے اپنے بھانجے زہاق کو جو ایران کا بادشاہ تھا۔ پیغام بھیجا کہ جتنا سونا چاندی تمہارے پاس جمع ہے۔ وہ فورا میرے پاس بھیج دو۔ زہاق نے ایسا ہی کیا اس نے تمام حکمرانوں اور سرداروں کو یہ حکم دیا کہ سونے چاندی کے کانوں سے اینٹیں بنوا کر بھیجے اور کوہ عدن کے متصل ایک مربع شہر جو دس کوس چوڑا اور دس کوس لمبا ہو بنانے کا حکم دیا۔

اس کی بنیادیں اتنی گہری کھدوائیں کہ پانی کے قریب پہنچا دیں۔ پھر ان بنیادوں کو سنگ سلیمانی سے بھروا دیا۔ جب بنیادیں بھر کر زمین کے برابر ہو گئی تو اس پر سونے چاندی کی دیواریں چنوائی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرر کی گئی۔ جب سورج نکلتا تو اس کی چمک سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔

یوں شہر کی چار دیواری بنائی گئی۔ اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک ہزار محل تعمیر کیے گئے۔ ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون جواہرات سے جڑاؤ کیا ہوا تھا۔ پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنوائی گئی اور ہر محل میں اس نہر سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے گئیں۔ ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔ ان نہروں کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سے سجا دی گئیں۔

نہروں کے کناروں پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے۔ جن کی جڑیں سونے کی شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔ ان کے پھل، موتی و یاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنوا کر ان پر ٹانگ دیے گئے۔ شہر کی دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور امبر و گلاب سے یاقوت و جواہرات کے خوبصورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے۔ جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آکر پہرے کے لیے بیٹھتے تھے۔

جب تعمیر مکمل ہو گئی حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم کے قالین بچھا دیے جائیں۔ پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں شہد اور شربت جاری کر دیا گیا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ اس جنت کو بنانے میں تین سو سال لگے اور شداد کی عمر نو سو سال کے قریب تھی۔

باغ کے مکمل ہونے کے بعد وہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ متکبرانہ انداز میں شہر کی طرف روانہ ہوا۔ جب قریب پہنچا تو تمام شہر والے اس کے استقبال کے لیے شہر کے دروازے کے باہر آگئے اور اس پر زر و جواہر نچھاور کرنے لگے۔ ابھی اس نے گھوڑے کی رقاب سے ایک پاؤں نکال کر دروازے کی چوکھٹ پر رکھا ہی تھا کہ کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کر لی۔

پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بڑے زور سے ایک ہولناک چیخ ماری کہ تمام شہر اپنی عالی شان سجاوٹوں اور محلات کے ساتھ زمین دوز ہو گیا اور اس کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ علماء و مورخین نے کتابوں میں لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لشکر کے ہلاک ہو جانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا گیا۔

Scroll to Top