کفن چور کا واقعہ

حضرت سیدنا ابو اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص ہماری محفل میں آیا کرتا تھا۔ مگر اس کا آدھا چہرہ ہمیشہ چھپا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے اس سے پوچھا کہ تم اپنا آدھا چہرہ چھپائے رکھتے ہو۔ آخر اس کے پیچھے کی کیا وجہ ہے؟ مجھے اس راز سے آگاہ کرو۔ اس نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیتے ہیں تو میں اپنا معاملہ بتاتا ہوں۔

میں نے کہا کہ بتاؤ، اصل معاملہ کیا ہے؟ اجازت ملنے پر اس شخص نے اپنی عبرت داستان کچھ اس طرح سنائی کہ میں کفن چور تھا۔ میں نے کئی قبروں سے کفن چرائے۔ جب بھی کسی نئی قبر کے متعلق معلوم ہوتا۔ تو فورا وہاں پہنچ کر کفن چرا لاتا۔ ایک مرتبہ ایک عورت کا انتقال ہوا۔ جب اسے دفنا دیا گیا۔ تو میں رات کو قبرستان پہنچا اور قبر کھودنا شروع کر دی

جب اینٹیں ہٹا کر کفن کی ایک چادر نکالی اور دوسری چادر کھینچنے لگا۔ تو اچانک اس عورت کے بے جان جسم نے حرکت کی اور چادر کو تھام لیا۔ میں نے کہا تمہارا کیا خیال ہے۔ تم مجھ پر غالب آ جاؤ گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ کہہ کر میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور پوری قوت سے کفن کھینچنے لگا۔ یکایک اس عورت نے ایک زور دار تھپڑ میرے چہرے پر مارا۔جس کی درد کی شدت سے میں بے قرار ہوگیا۔ اور میرے چہرے پر بہت زیادہ جلن ہونے لگی۔

یہ کہہ کر اس کفن چور نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا۔ تو اس کے گال پر انگلیوں کے نشان بالکل واضح تھے۔ میں نے کہا کہ اچھا پھر کیا ہوا۔ اس نے کہا پھر میں نے چادر واپس اس عورت پر ڈال دی۔ اور جلدی جلدی قبر پر مٹی ڈال کر برابر کر دیا۔ اور پختہ ارادہ کر لیا کہ جب تک زندہ رہوں گا۔ کبھی بھی کفن نہیں چراؤں گا۔ اللہ میرے سابقہ گناہوں کو معاف فرمائے اور مجھے توبہ پر استقامت عطا فرمائے۔

حضرت سیدنا ابو اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کفن چور کا سارا واقعہ لکھ کر میں نے حضرت سیدنا ابو عزیر رحمۃ اللہ علیہ کی طرف روانہ کیا۔ انہوں نے یہ جواب لکھ کر بھیجا کہ اس سے پوچھیں کہ جو مسلمان قبلہ روخ دفنائے گئے تھے۔ کیا سب کے چہرے قبلہ کی طرف تھے یا قبلہ سے پھر چکے تھے۔

میں نے کفن چور سے یہی سوال پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے جن لوگوں کے کفن چرائے۔ ان میں سے اکثر کے چہرے قبلہ سے پھر چکے تھے۔ حضرت سیدنا ابو اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات لکھ کر حضرت ابو عزیر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھیجی تو انہوں نے جواب میں یہ تحریر بھجوائی کہ اسحاق رحمتہ جن لوگوں کے چہرے قبلہ سے پھر چکے تھے۔ ان کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا۔

Scroll to Top