حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ

hazrat khizar ka waqia in urdu

ایک مرتبہ حضرت خضر علیہ السلام دریا کے کنارے بیٹھے تھے۔ اتنے میں کسی سائل نے آ کر ان سے سوال کیا کہ میں آپ سے اللہ کے واسطے سوال کرتا ہوں۔ مجھے عنایت فرمائیے؟ یہ سن کر حضرت خضر علیہ السلام پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔

جب کچھ ہوش ہوا تو فرمانے لگے بھائی میں تو صرف اپنی جان اور مال کا مالک ہوں۔ تم نے مجھ سے اللہ کے واسطے سوال کیا ہے۔ لہذا میں اپنی جان اور ذات تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ تم جس طرح چاہو اس کو استعمال میں لاؤ۔ بازار میں فروخت کر کے اس کی قیمت سے فائدہ اٹھاؤ۔

چنانچہ سائل ان کو بازار لے گیا اور ایک شخص صائمہ کے ہاتھ ان کو فروخت کر دیا۔ یہ (صائمہ) خرید کر ان کو اپنے گھر لے گیا۔ جس کی پشت پر اس کا ایک باغ تھا۔ چنانچہ صائمہ نے حضرت خضر علیہ السلام کو ایک قدال دے کر کہا کہ سامنے والا پہاڑ جو تین مربع میل رقبے میں واقع تھا اس کی مٹی کاٹ کاٹ کر باغ میں ڈال دو۔

اور یہ حکم دے کر صائمہ اپنی کسی ضرورت سے کہیں چلا گیا اور حضرت خضر علیہ السلام اس پہاڑ سے مٹی کاٹ کاٹ کر باغ میں ڈالنے لگے۔ جب صائمہ گھر واپس آیا۔ تو اس نے گھر والوں سے دریافت کیا کہ تم نے غلام کو کھانا بھی کھلایا یا نہیں؟

گھر والوں نے جواب دیا کہ ہمیں معلوم ہی نہیں غلام کہاں ہے؟ یہ سن کر جب صائمہ خود کھانا لے کر باغ میں آیا۔ تو اس نے دیکھا کہ وہ غلام یعنی حضرت خضر علیہ السلام تمام پہاڑ کی مٹی کاٹ کر ڈال چکے تھے۔ اور اپنے کام سے فارغ ہو کر اپنے مولا حقیقی کی عبادت میں مصروف تھے۔

یہ دیکھ کر ان کو بڑا تعجب ہوا اور اس نے دریافت کیا یہ تو بتائیے کہ آپ کون ہیں؟ یہ بات سن کر حضرت خضر علیہ السلام پر کچھ بے ہوشی سی طاری ہو گئی اور پھر افاقہ ہونے پر انہوں نے فرمایا کہ بھائی میں خضر ہوں۔

جس کو سن کر صائمہ کے ہوش اڑ گئے کہ تو نے یہ کیا کیا۔ ان کو غلام بنا کر ایسے کام پر لگایا۔ یہ تو انتہائی گستاخی ہے۔ پھر یہ سوچنے کے بعد صائمہ نے توبہ کی اور پروردگار سے عذر خواہی کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام کو آزاد کر دیا۔

اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے رب العالمین مجھ سے اس کا مواخذہ نہ کیجیے گا۔ کیونکہ میں ان کو جانتا نہیں تھا۔ اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام نے دعا فرمائی اور سجدہ شکر بجا لائے کہ اے میرے پروردگار میں تیرے ہی حق میں غلام بنا اور تیرے ہی حق میں آزاد ہوا۔ اس پر تیرا شکر گزار ہوں۔

بعد ازاں واپسی کی اجازت لے کر جب دریا پر واپس آئے۔ تو دیکھا ایک شخص کھڑا دعا مانگ رہا ہے کہ اے میرے رب حضرت خضر علیہ السلام کو غلامی سے رہائی عطا فرما دے اور ان کی توبہ قبول فرما لے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے یہ دیکھ کر اس شخص سے دریافت کیا کہ آخر تو کون ہے؟

تو اس شخص نے بتایا کہ میں تو شازون ہوں۔ آپ کون ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں خضر ہوں۔ اس کے بعد شازون نے کہا اے خضر علیہ السلام آپ نے اپنے رہنے کے لیے مکان بنا کر دنیا طلب کی ہے۔ کیونکہ حضرت خضر علیہ السلام کا دریا کے کنارے پر ایک عبادت خانہ تھا۔

بس یہ سن کر وہ فورا میدان میں نکل آئے اور وہی اللہ کی عبادت میں مصروف ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام نے اسی جگہ پر ایک درخت لگایا اور اس کے سائے میں عبادت شروع کر دی۔

تو آواز آئی اے خضر جب تم نے درخت کے سائے میں سجدہ کیا تو تم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ پھر فرمان ہوا مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ہے۔ مجھے دنیا کی محبت میں رضا مندی نہیں ہے۔

اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام نے شازون فرشتے سے کہا کہ اے شازون دعا کرو کہ اللہ تعالی میری توبہ قبول فرمائے۔ چنانچہ شازون نے دعا کی اور اللہ نے شازون کی برکت سے حضرت خضر علیہ السلام کی توبہ کو قبول فرمایا۔

حاصل

 خدا کے برگزیدہ بندے اسی حالت میں رہتے ہیں۔ جو اللہ کو منظور ہو۔ بے شک ہماری فلاح بھی اسی میں ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر آنے والے ہر پیچ و خم میں ہم راضی رہیں۔ اللہ تعالی کی چاہت کو سامنے رکھ کر زندگی گزاریں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اس واقعے سے سبق حاصل کر کے نیک بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

Scroll to Top