حاتم طائی کوئی افسانوی کہانی کا کردار نہیں بلکہ حقیقی تاریخی شخصیت ہے۔ جو چھٹی صدی عیسوی میں یمن کے طے قبیلے کا سردار تھا۔ حاتم کا پورا نام حاتم بن عبداللہ بن سعد ابن ازم الطائی تھا۔ حاتم کی ماں نہایت ہی دولت مند اور سخی خاتون تھی۔ جن کی وفات کے بعد حاتم کے بھائیوں نے اس کا مال روک لیا اور حاتم پر بے شمار ظلم ڈھائے۔
حاتم کو سخاوت وراثت میں ملی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جوان ہو کر نہایت ہی سخی شخص ثابت ہوا۔ حاتم نے سخاوت میں اس قدر مبالغہ کیا کہ جب وہ بچپن میں دادا کے پاس رہا کرتا تھا۔ اس وقت وہ اپنا کھانا لے کر باہر نکل جاتا۔ اگر کوئی مل جاتا تو ساتھ مل کر کھا لیتا۔ ورنہ کھانا نہ کھاتا تھا۔
یوں حاتم پورے عرب میں مشہور ہوا اور اس کی سخاوت کے چرچے عام ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے حاتم کی سخاوت کے بہت سے قصے گڑھ لیے۔ لیکن اس کے باوجود حاتم کی سچی حکایت اس کی سخی شخصیت کی دلیل ہے۔ عرب میں جبل سمرہ کی چوٹی پر واقع ایک مقام تھا۔ جہاں حاتم رات کے وقت آگ جلایا کرتا تھا۔ تاکہ علاقے سے گزرنے والوں کو راستے کی رہنمائی حاصل ہو سکے۔ اس مقام کو آج حاتم طائی کا آتش دان کہتے ہیں۔
یہ علاقہ آج بھی آثار قدیمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابن اعرابی کے مطابق حاتم ہر میدان میں کامیاب تھا ۔ خواہ وہ جنگ ہو، مقابلہ ہو، کھیل ہو یا سخاوت ہو۔ زمانہ جاہلیت میں ماہ رجب کا چاند بہت ہی مقدس مانا جاتا تھا۔ لہذا جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حاتم ہر روز دس اونٹ ذبح کرتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا۔
یوں تو حاتم کے سخاوت اور فراخ دلی کے قصے بہت سارے ہیں۔ لیکن چند ایک جو بہت ہی مشہور ہیں۔ مشہور ہے کہ روم کے بادشاہ قیصر کے دربار میں ایک دن حاتم طائی کی سخاوت کا تذکرہ ہوا۔ ایک شخص نے بتایا کہ حاتم کے پاس عمدہ نسل کے گھوڑے ہیں، جو نہایت ہی خوبصورت ہیں۔ حاتم کی تعریف سن کر بادشاہ نے کہا جب تک کسی آدمی کو آزمایا نہ جائے۔ اس وقت تک اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا عقل کے خلاف ہے۔
بادشاہ نے کہا جاؤ اور حاتم کی سخاوت کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کرو۔ اس سے کوئی ایسی چیز طلب کرو جو اس کی نظر میں سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ درباری نے کہا کہ حاتم کے لیے سب سے زیادہ عزیز اور قیمتی اس کا تیز رفتار گھوڑا ہے۔ لہذا بادشاہ نے یہ حکم دیا کہ حاتم سے اس کا گھوڑا مانگو اور میرے پاس لے کر آؤ۔ لہذا وزیر کے درباری کئی منزلیں طے کرتے ہوئے رات کے وقت حاتم طائی کے گھر پہنچے۔
جب وہ وہاں پہنچے تو موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ ایسے خراب موسم میں گھر سے نکلنا نہایت ہی مشکل تھا۔ لہذا مہمانوں کے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے حاتم نے اپنے گھوڑے کو ہی ذبح کر دیا۔ اور دسترخوان پر لذیذ بھنا ہوا گوشت پیش کیا۔ صبح کے وقت جب بارش تھمی تو ان وزیروں نے کہا کہ ہمارے بادشاہ کے سامنے آپ کے گھوڑے کی بہت تعریف کی گئی ہے۔
بادشاہ چاہتا ہے کہ آپ اپنا گھوڑا بادشاہ کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کر دیں۔ وزیر کی بات سن کر حاتم نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنے لگا کہ وہ گھوڑا تو میں نے آپ کو رات میں کھلا دیا۔ وزیر نے کہا ہمارے بادشاہ کے سامنے آپ کے گھوڑے کی بہت تعریف کی گئی تھی۔ یہ بات اگر بادشاہ سنے گا تو وہ آپ کی سخاوت کا بھی قائل ہو جائے گا۔
سن پانچ سو اٹھتر عیسوی میں حاتم کی وفات ہوئی۔ حاتم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا عدی طے قبیلے کا حاکم بنا۔ وہ نو ہجری میں مسلمان ہوئے ان کے اسلام لانے کا واقعہ بہت ہی مشہور ہے۔ عدی اپنے قوم کے سردار تھے قوم پیداوار اور مال و غنیمت کا چوتھائی حصہ ان کے نظر کیا کرتی تھی۔ انہیں مسلمانوں سے سخت دشمنی تھی۔ وہ عیسائی تھے اور اسلام کو عیسائیت کا رقیب سمجھتے تھے۔
سردار ہونے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اقتدار ان کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ یمن کے قبیلے طے نے اسلام کے خلاف بغاوت کی۔ حضرت علی ان دنوں یمن کے گورنر تھے۔ انہوں نے بغاوت کو ختم کیا اور بغاوت کے لیڈروں کو گرفتار کر کے مدینہ بھیج دیا۔ ان میں عدی کی بہن صفانہ تھی۔ یعنی صفانہ بنت حاتم۔ وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ میں سخی حاتم طائی کی بیٹی ہوں۔ میرا باپ بھوکوں کا پیٹ بھرتا تھا اور غریبوں پر رحم کرتا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے باپ میں مسلمانوں کی سی خوبیاں تھیں۔ اگر تیرا باپ مسلمان ہوتا تو یقینا ہم اس پر رحم کا معاملہ ہی فرماتے۔
اس لڑکی کو رہا کر دو کیونکہ اس کا باپ اعلی اخلاق کا مالک تھا اور اللہ اعلی اخلاق کو پسند فرماتا ہے۔ لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس احسن سلوک سے متاثر ہو کر عدی اور ان کی بہن صفانہ نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔