حلال رزق اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کو خط لکھا کہ بہت عرصہ ہوا آپ تشریف نہیں لائے۔ آپ سے ملاقات کو جی چاہتا ہے۔ جواب میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے فورا اپنا پروگرام لکھ کر بھیج دیا کہ فلاں دن فلاں تاریخ کو میں آپ کی خدمت میں مصر میں حاضر ہو رہا ہوں۔

حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے گھر والوں کو، اپنے ملنے جلنے والوں کو، اور دوسرے علماء کو ان کے آنے کی اطلاع دی۔ پھر ان کی دعوت اور ان کے استقبال کا خصوصی اہتمام کیا۔ آپ نے لوگوں سے بتایا کہ اگرچہ وہ میرے شاگرد ہیں، مگر وہ ایک بہت بڑے امام ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کو بڑا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔

چنانچہ جس دن ان کو پہنچنا تھا۔ اس دن امام شافعی رحمت اللہ علیہ اپنے شاگردوں اور دوسرے علماء کو لے کر ان کے استقبال کے لیے شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ اس وقت مصر کے جو بادشاہ تھے۔ وہ بھی حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے معتقد تھے۔ وہ بھی امام صاحب کے ساتھ استقبال کے لیے چلے آئے۔

پھر یوں ہوا کہ حضرت امام احمد بن حنبل وقت مقررہ پر پہنچ گئے۔ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے ان کا بڑا شاندار استقبال کیا۔ اور پھر عزت و احترام کے ساتھ ان کو لے کر گھر پہنچ گئے اور ان کے لیے بہترین کھانے کا انتظام کیا۔

اس زمانے میں عام طور پر اولیاء اللہ اور بزرگوں کی شان یہ تھی کہ وہ کھانا بہت کم کھایا کرتے تھے اور رات بھر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ جب حضرت امام احمد بن حنبل رحمت اللہ علیہ کھانا کھانے بیٹھے۔ تو دیر تک اس طرح کھانا کھاتے رہے جیسے کئی روز کے بھوکے ہوں۔

باقی لوگ کھانا کھا کر اٹھ گئے، مگر وہ کھاتے رہے۔ لوگ بہت حیران ہوئے کہ حضرت امام شافعی رحمت اللہ علیہ نے تو ان کی تعریف کی تھی کہ یہ بڑے اللہ والے اور بزرگ انسان ہیں۔ مگر یہ تو خوب پیٹ بھر کر کھانا کھا رہے ہیں۔ لوگوں میں اور گھر والوں میں ان کے بارے میں چہم گوئیاں ہونے لگی۔لیکن کوئی کچھ نہ بولا۔

پھر جس کمرے میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے لیے رات کے وقت آرام کرنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس کمرے میں حضرت امام شافعی رحمت اللہ علیہ کی بچیوں نے ایک مصلی بچھا دیا، مسواک رکھ دی، استنجے کے لیے ڈھیلے اور پانی رکھ دیا اور وضو کے لیے لوٹا بھی لا کر رکھ دیا۔
تاکہ جب وہ رات کو تہجد کے لیے اٹھیں تو انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔

اور اس زمانے میں رات کو تہجد کے لیے اٹھنا ایک عام معمول تھا۔ اللہ تعالی بچائے کہ آج ہمارے زمانے میں یہ افسوس ناک ماحول ہو گیا ہے کہ صبح آٹھ بجے اور نو بجے اٹھنا ہمارا عام معمول بن چکا ہے اور کئی لوگ تو اس سے بھی تاخیر سے اٹھتے ہیں۔

اور جو علماء اور صالح لوگ تھے۔ وہ تو رات رات بھر عبادت کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالی ہم سب کو بھی تہجد پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! بہر حال حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے رات کو اس کمرے میں آرام کیا اور صبح اٹھ کر فجر کی نماز پڑھنے چلے گئے۔

جیسے ہی وہ نماز کے لیے نکلے تو حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی بچیاں اس کمرے میں آگئی۔ تو وہاں دیکھتی ہیں کہ پانی کا لوٹا ویسے کا ویسا پانی سے بھرا ہوا ہے۔ نہ مسواک استعمال ہوئی، نہ ڈھیلے استعمال ہوئے اور نہ وضو کے لیے پانی استعمال ہوا۔ سب کچھ جیسا تھا ویسے کا ویسا ہی رکھا تھا۔

اب ان کے دل میں یہ شبہ ہوا کہ شاید رات کو چونکہ زیادہ کھا لیا تھا۔ اس لیے تہجد کے لیے آنکھ نہیں کھلی ہو گی۔ جب کہ فجر کی نماز پڑھ کر حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے۔ تو گھر والوں نے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ وہ تو بہت بڑے اللہ والے اور بہت بڑے بزرگ ہیں۔

مگر رات کو انہوں نے کھانا بھی خوب کھایا۔ رات کو ہم نے ان کو وضو اور استنجے کے لیے پانی اور ڈھیلے رکھے تھے۔ وہ بھی استعمال نہیں ہوئے۔ معلوم ہوا کہ رات کو تہجد کی نماز بھی نہیں پڑھی۔

اب حضرت امام شافعی رحمت اللہ علیہ کو بھی تشویش ہوئی۔ لہذا انہوں نے حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کو بلایا اور تنہائی میں لے جا کر ان سے پوچھا کہ اس طرح کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں کہ آپ نے کھانا بھی غیر معمولی طور پر کچھ زیادہ کھایا اور جس کمرے میں آپ کے لیے سونے کا انتظام کیا گیا تھا۔

اس کمرے میں آخری شب میں استعمال کے لیے جو چیزیں رکھی گئی تھیں۔ وہ بھی استعمال میں نہیں آئیں۔ کیا بات ہوئی؟ آپ پہلے تو ایسے نہیں تھے۔ کیا یہاں سے جانے کے بعد آپ کے مزاج میں کچھ تبدیلی آ گئی ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت میرے بارے میں جو باتیں ہو رہی ہیں۔ وہ درست نہیں ہیں۔

بلکہ بات کچھ اور ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں جس وقت کھانا کھانے کے لیے آپ کے دسترخوان پر پہنچا اور جس وقت میں نے اس کمرے میں قدم رکھا تو میں نے دیکھا کہ اس کھانے کے حلال اور طیب ہونے کی وجہ سے وہ کمرہ نور سے چک وچوند ہو رہا ہے۔ اور یہ دیکھا کہ آسمان سے لے کر اس دسترخوان تک انوار کی بارش ہو رہی ہے۔

جب میں نے یہ صورتحال دیکھی تو میں نے سوچا کہ شاید اس سے زیادہ حلال اور طیب کھانا مجھے زندگی میں نہیں ملے گا۔ لہذا جتنا بھی زیادہ سے زیادہ اس کو کھایا جا سکتا ہے کھا لیا۔ اس لیے کہ اس کھانے کا ذرہ ذرہ ایمان کو اور دل کو روشن کرنے والا ہے۔

اس لیے مجھ سے جتنا زیادہ سے زیادہ کھانا کھایا جا سکتا تھا میں نے کھا لیا۔ اور میں نے یہ نہیں دیکھا کہ کون کتنا کھا رہا ہے۔ اور کون میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہے؟ جہاں تک مجھ میں کھانے کی سکت تھی میں کھاتا گیا اور پھر حلال کھانے سے بدہضمی بھی نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ سریع الہضم ہوتا ہے۔ اور اندر جا کر جز و بدن ہو جاتا ہے اور روح کو منور کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

الحمدللہ میں نے اس کا اثر محسوس کیا۔ کیونکہ کھانا کھانے کے بعد نہ تو مجھے بدہضمی ہوئی اور نہ مجھے کوئی تکلیف ہوئی۔ پھر کھانا کھانے کے بعد عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر جب میں اس کمرے میں پہنچا۔ جہاں آپ نے میرے لیے آرام کا انتظام کیا تھا۔ وہاں جا کر تو میری حالت ہی بدلی ہوئی تھی اور سونے کو اور آرام کرنے کو میری طبیعت چاہ ہی نہیں رہی تھی۔

اگرچہ میں سفر کر کے آیا تھا۔ مگر اس کھانے میں اتنی غذائیت اور توانائی تھی کہ میری تھکان بھی ختم ہو گئی اور سستی بھی جاتی رہی۔ اور جب میں سونے کے لیے لیٹا تو مجھے نیند نہ آئی۔ لہذا میں لیٹا رہا اور لیٹے لیٹے قرآن و حدیث میں غور کرتا رہا۔ حتی کہ پوری رات غور و فکر کرتے ہوئے گزر گئی۔

اور اسی رات میں نے قرآن و حدیث سے ایک سو مسائل کا حل تلاش کر لیا اور وہ مسائل ایسے تھے جو اس سے پہلے کبھی میرے ذہن میں نہ آئے ہوں۔ اور نہ ان کی طرف میرا کبھی خیال گیا ہو۔ لیکن جب آج کی رات میں نے غور کیا۔ تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ قرآن و حدیث کے علوم اور اثرات میرے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔

تمام مسائل کی تفصیل اور جوابات میرے ذہن میں آتے چلے جا رہے تھے۔ اور صبح تک میں مسائل کا حل جانچتا رہا اسی حالت میں صبح ہو گئی۔ یہ سب آپ کے کھانے کا اثر تھا۔ جو رات بھر میں نے محسوس کیا۔ اسی لیے تہجد کے وقت نہ تو لوٹا استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی اور نہ مسواک کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

اور وہی عشاء کا وضو میرے لیے فجر میں کام آیا۔ یہ سن کر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے پھر اپنے گھر والوں کو حقیقت حال بتائی اور جو لوگ ان کے بارے میں غلط قسم کی باتیں کر رہے تھے۔ ان سے کہا کہ تم نے ان کی شان میں گستاخی کی ہے۔ لہذا ان سے معافی مانگو۔

Scroll to Top