بیان کیا جاتا ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر ایک چرواہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔وہ چرواہا یہودیوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ جب دیکھا کہ خیبر سے باہر مسلمانوں کا لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ میں جا کر ان سے ملاقات کروں اور دیکھوں کہ یہ مسلمان کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔
چنانچہ بکریاں چراتا ہوا مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گیا اور ان سے پوچھا تمہارا سردار کہاں ہے؟ صحابہ کرام نے بتایا کہ ہمارے سردار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خیمے کے اندر ہیں۔ پہلے تو اس چرواہے کو ان کی باتوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے سوچا کہ اتنے بڑے سردار ایک معمولی سے خیمے کے اندر کیسے بیٹھ سکتے ہیں۔
اس کے ذہین میں یہ بھی تھا کہ جب آپ اتنے بڑے بادشاہ ہیں۔ تو بہت ہی شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کے ساتھ رہتے ہوں گے۔ لیکن وہاں تو کھجور کے پتوں کی چٹائی سے بنا ہوا ایک خیمہ تھا۔ خیر وہ چرواہا اس خیمے کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے لیے داخل ہوا اور آپ سے ملاقات کی۔
اور پوچھا کہ آپ کیا پیغام لے کر آئے ہیں؟ اور کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سامنے اسلام اور ایمان کی دعوت رکھی. اور اسلام کا پیغام دیا۔ اس نے پوچھا کہ اگر میں اسلام کی دعوت قبول کر لوں۔ تو میرا کیا انجام ہوگا؟ اور کیا رتبہ ہوگا؟
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسلام لانے کے بعد تم ہمارے بھائی بن جاؤ گے اور ہم تمہیں گلے سے لگائیں گے۔ اس چرواہے نے کہا کہ آپ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں؟ میں کہاں اور آپ کہاں؟ میں ایک معمولی سا چرواہا ہوں اور میں ایک سیاہ فام انسان ہوں۔ میرے بدن سے بدبو آ رہی ہے۔ ایسی حالت میں آپ مجھے کیسے گلے سے لگا سکتے ہیں۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تمہیں ضرور گلے سے لگائیں گے اور تمہارے جسم کی سیاہی کو اللہ تعالی مٹا دے گا۔ اور اللہ تعالی تمہارے جسم سے اٹھنے والی بدبو کو خوشبو سے تبدیل کر دیں گے۔ یہ بات سن کر وہ فورا مسلمان ہو گیا اور کلمہ شہادت پڑھ لیا۔
پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کہ تم ایسے وقت پر ایمان لائے ہو کہ نہ تو اس وقت کسی نماز کا وقت ہے کہ تم سے نماز پڑھواؤں اور نہ ہی روزے کا زمانہ ہے کہ تم سے روزہ رکھواؤں۔ زکوۃ تم پر فرض نہیں ہے۔ اس وقت تو صرف ایک ہی عبادت ہو رہی ہے۔ جو تلواروں کی چھاؤں میں انجام دی جاتی ہے۔ وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ۔
اس چرواہے نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس جہاد میں شامل ہو جاتا ہوں۔ لیکن جو شخص جہاد میں ہوتا ہے اس کے لیے دو میں سے ایک صورت ہوتی ہے یا غازی یا شہید۔ تو اگر میں اس جہاد میں شہید ہو جاؤں۔ تو آپ میری کوئی ضمانت لیجیے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس بات کی ضمانت لیتا ہوں کہ اگر تم اس جہاد میں شہید ہو گئے۔ تو اللہ تعالی تمہیں جنت میں پہنچا دیں گے اور تمہارے جسم کی بدبو کو خوشبو سے تبدیل فرما دیں گے اور تمہارے چہرے کی سیاہی کو سفیدی میں تبدیل کر دیں گے۔
چونکہ وہ چرواہا یہودیوں کی بکریاں چراتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔ اسی لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہودیوں کی جو بکریاں لے کر آئے ہو۔ ان کو جا کر واپس کرو اس لیے کہ یہ بکریاں تمہارے پاس امانت ہیں۔ اس بات سے یہ اندازہ لگائیں کہ جن لوگوں کے ساتھ جنگ ہو رہی ہے۔ جن کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ ان کا مال غنیمت ہے۔
لیکن چونکہ وہ چرواہا بکریاں معاہدے پر لے کر آیا تھا۔ اس لیے آپ نے حکم دیا کہ پہلے وہ بکریاں واپس کر کے آؤ۔ پھر آ کر جہاد میں شامل ہونا۔ چنانچہ اس چرواہے نے جا کر بکریاں واپس کیں اور واپس آ کر جہاد میں شامل ہوا اور شہید ہو گیا۔ جب جنگ ختم ہو گئی، تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر کا جائزہ لینے لگے۔
ایک جگہ آپ نے دیکھا کہ صحابہ کرام کا مجمع اکٹھا ہے۔ جب آپ قریب پہنچے تو ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ صحابہ کرام نے فرمایا جو لوگ جنگ میں شہید ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک آدمی ایسا بھی ہے کہ جس کو ہم سے کوئی نہیں پہچانتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دکھاؤ جب آپ نے دیکھا۔
تو آپ نے فرمایا تم اس شخص کو نہیں پہچانتے۔ مگر میں اس شخص کو پہچانتا ہوں۔ یہ چرواہا ہے اور یہ وہ عجیب و غریب بندہ ہے۔ جس نے اللہ کی راہ میں ایک بھی سجدہ نہیں کیا اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی اس کو سیدھا جنت الفردوس میں پہنچا دیا ہے۔ اور میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ ملائکہ اس کو غسل دے رہے ہیں اور اس کی سیاہی سفیدی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اور اس کی بدبو خوشبو سے بدل گئی ہے۔
حاصل
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اندازہ کیجیے اگر کچھ عرصہ پہلے اس چرواہے کو موت آ جاتی تو سیدھا جہنم میں چلا جاتا اور اب اس حالت میں موت آئی کہ ایمان لا چکا ہے۔ اور سرکا دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام بن چکا ہے۔ تو اب اللہ تعالی نے اتنا بڑا انقلاب پیدا فرما دیا۔
اسی لیے فرمایا اعتبار خاتمے کا ہے۔ اسی لیے بڑے بڑے لوگ لرزتے رہتے ہیں اور یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ یا اللہ ہمارا خاتمہ ایمان پر فرما۔ میری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اس سے سبق حاصل کر کے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Related Searches: –
- urdu waqia
- waqiat in urdu
- Islamic Waqiat