شیطان کی پیدائش کی حقیقت؟

 شیطان کون تھا؟ شیطان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ جب اللہ تبارک و تعالی نے اس کائنات کو تخلیق فرمایا۔ تو اللہ تبارک و تعالی نے انسانوں کو پیدا کرنے سے پہلے کون کون سی مخلوقات کو پیدا فرمایا؟ اس روئے زمین پر انسانوں سے پہلے کون کون سی مخلوقات رہا کرتی تھی؟ اور انسانوں کے ازلی دشمن شیطان کو کیسے پیدا کیا گیا؟ اس کے ماں باپ کون تھے اور اس روئے زمین پر سب سے پہلے شیطانوں اور فرشتوں کے درمیان جنگ کس وجہ سے ہوئی؟ شیطان اعزازیل سے ابلیس کیسے بنا؟

اور ایسے بہت سے سوالات جو شیطان یعنی ابلیس کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں اٹھتے ہیں۔ آج ان سوالات کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جاۓ گا۔ اور ایسے حقائق سے آپکو آگاہ کیا جاۓ گا جن کے بارے میں اکثر ہمارے بہن بھائی واقف ہی نہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے رستے پر نہ چلو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے اللہ تبارک و تعالی نے صرف دو مخلوقات کو پیدا کیا ایک ناری اور دوسرا نوری یعنی فرشتوں کو کہا جاتا ہے۔ جن کو اللہ تبارک و تعالی نے نور سے تخلیق فرمایا۔ اس نوری مخلوق کی نسل نہیں بڑھتی کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے اس نوری مخلوق کے جوڑے نہیں پیدا کیے۔ جس وجہ سے فرشتوں کی اولاد پیدا نہیں ہوتی۔

اور دوسری ناری مخلوق جن کو آگ سے پیدا کیا گیا وہ جنات ہیں۔ جن کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ جنات میں سب سے پہلے سمعون جن کو پیدا کیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالی نے سمعون جن کو پیدا کر کے زمین پر بھیجا اور اس کے لیے ایک جن لڑکی کو بھی پیدا فرما دیا۔ اس طرح اس جن نے اس لڑکی سے شادی کر لی جس سے ان کی نسل خوب بڑھی اور یہ جنات اتنے زیادہ ہو گئے کہ پوری روح زمین پر پھیل گئے۔

شروع شروع میں یہ جنات فرشتوں کی طرح ہر وقت اللہ تبارک وتعالی کی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اور پھر آہستہ آہستہ ان میں سے کچھ جنات نے اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانیاں کرنا شروع کر دیں۔ اور اللہ تبارک و تعالی کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے یہ ناری مخلوق اللہ تبارک و تعالی کی نافرمان مخلوق بن گئی۔

شیطان کے ماں باپ

جنات میں سے ایک نامی گرامی جن کا نام چلیپا تھا۔ اور اس کی بیوی کا نام تبلیز تھا۔ یہ دونوں بہت ہی قد آور اور بہادر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ چلیپا جن کی شکل و صورت ببر شیر کی طرح تھی۔ اور تبلیز کی شکل بھیڑیے سے ملتی جلتی تھی۔ چلیپا جنات کا سردار تھا۔ اس کے نام سے بڑے بڑے جنات خوف کھاتے تھے۔ چنانچہ چلیپا اور تبلیز کے ملاپ سے ایک بچہ پیدا ہو۔ ا جس کا نام انہوں نے اعزازیل رکھا۔ یہ بچہ اپنے والدین کی طرح بہادر اور دراز قد کا تھا۔

شیطان اور فرشتوں میں جنگ

روایات میں آتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے یا اس سے بھی زائد کا عرصہ زمین پر جنوں کا عروج تھا۔ اس روئے زمین پر ہر طرف جنات ہی جنات تھے۔ یہ جنات زیادہ شریر تھے اور یہ زمین کے اندر فتنہ فساد پھیلاتے تھے۔ اس طرح جب جنات نے اس زمین پر فساد پھیلانا اور تباہی مچانا شروع کر دی۔ تو اس وقت اللہ تبارک وتعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ زمین پر جاؤ اور جنوں سے جنگ کرو۔

تو فرشتے اللہ تبارک وتعالی کے حکم سے زمین پر اترے ان فرشتوں نے جنوں کو حکم دیا کہ اللہ تبارک وتعالی نے حکم دیا ہے کہ زمین میں امن و امان سے زندگی بسر کرو۔ لیکن جنات نے فرشتوں کی بات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے جنات اور فرشتوں کے درمیان بہت بڑی جنگ ہوئی۔ اس خوفناک جنگ میں عزاذیل کے والدین یعنی چلیپا اور تبلیز نے بھی شرکت کی۔

اس جنگ میں فرشتے اللہ کے حکم سے جنات پر غالب آ گئے۔ اس جنگ کے اندر بہت سارے جنات مارے گئے۔ جن میں عزاذیل کے والدین بھی شامل تھے۔ اور باقی سرکش جنات کو اللہ تبارک و تعالی کے حکم کے مطابق قید کر لیا گیا۔ ان قیدیوں میں عزاذیل بھی شامل تھا۔ فرشتے جب ان جنات کو قید کر کے آسمانوں کی طرف لے گئے۔

تو شیطان بھی ان کے ساتھ آسمان پر چلا گیا۔ پھر اللہ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ملا کہ عزاذیل کی بہترین تربیت کی جائے اور اس کی اچھی پرورش کی جائے۔ فرشتوں نے عزاذیل کو عبادت کرنے کی بہترین طریقوں سے آگاہ کیا۔ جس کی وجہ سے عزاذیل اللہ تبارک وتعالی کا ایک عبادت گزار بندہ بن گیا۔

اور اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں بہت بڑا مرتبہ حاصل کر لیا۔ اس دوران عزاذیل بہت قابل اور عقل مند بن گیا۔ اس وقت اللہ تبارک و تعالی نے عزاذیل کو فرشتوں پر استاد مقرر کر دیا۔ عزاذیل فرشتوں کو تعلیم و تربیت دینے لگا۔ اور فرشتے عزاذیل کے پاس آتے اور علم حاصل کرتے۔ فرشتے عزاذیل کو نیک اور پرہیزگار کہا کرتے تھے۔

حضرت کعب بن احبا رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عزاذیل چالیس ہزار سال تک جنت کا خزانچی رہا۔ اور اسی (٨٠) سال تک وہ فرشتوں کے ساتھ رہا اور بیس (٢٠) ہزار سال تک فرشتوں کو تعلیم و تربیت دیتا رہا۔ اس کا مقام اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں اتنا زیادہ ہو گیا۔ کہ اللہ تبارک وتعالی کے سب سے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام، حضرت میکائیل علیہ السلام، حضرت اسرافیل علیہ السلام اور حضرت عزرائیل علیہ السلام بھی اس سے تعلیم و تربیت حاصل کیا کرتے تھے۔

اللہ تبارک وتعالی اس کائنات کا حقیقی مالک ہے۔ اس سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ اللہ تبارک و تعالی کو اس بات کا علم تھا کہ یہ اعزازیل ایک دن میرے حکم کو جھٹلا دے گا اور اس کا خاتمہ کفر پر ہوگا۔ چنانچہ ایک دن عزاذیل کا گزر لوہے محفوظ کے قریب سے ہوا تو عزاذیل نے لوح محفوظ پر دیکھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔

اس تحریر کو پڑھنے کے بعد تقریبا دو ہزار سال تک اعزازیل روتا رہا اور اللہ تبارک و تعالی کی عبادت میں مصروف رہا۔ عزاذیل تبارک و تعالی کی بارگاہ میں یہ سوال کرنے لگا۔ یا رب العالمین! یہ اتنا بڑا شیطان مردود کون ہے؟ جس سے پناہ مانگی جا رہی ہے۔ عزاذیل کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا کہ میں نے ایک بندے کو اپنی ہر نعمت سے نوازا ہے۔ وہ بندہ ایک دن میرے حکم کو ماننے سے انکار کرے گا۔ جس کی وجہ سے اس کی ساری عبادت ضائع ہو جائے گی اور وہ شیطان مردود بن جائے گا۔

اللہ تبارک و تعالی کا یہ فرمان سننے کے بعد عزاذیل ہر وقت یہ سوچتا رہتا کہ وہ شیطان مردود کون ہوگا؟ چنانچہ اعزازیل نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے کہا کہ یا رب العالمین میں اس شیطان مردود سے ملنا چاہتا ہوں۔ تو اس وقت اللہ تبارک و تعالی نے اعزازیل کو فرمایا کہ تو جلد ہی اس بندے  کو دیکھ لے گا۔

 پھر اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی نے فرشتوں میں یہ اعلان کیا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔ اعزازیل کو جب اس بات کا علم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالی ایک ایسے انسان کو پیدا کرنے جا رہا ہے۔ جس کے پتلے کو بنانے کے لیے آسمانوں اور زمینوں سے مٹی کو اکٹھا کیا جا رہا ہے۔

تخلیق آدم علیہ السلام

چنانچہ جب اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے کو تخلیق فرما لیا۔ تو اس پتلے کو چالیس ہزار سال تک اسی طرح پڑا رہنے دیا۔ اس میں جان نہ ڈالی گئی۔ چنانچہ جب فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے کے قریب سے گزرتے تو بہت حیرت زدہ ہو کر اس کو دیکھتے۔ اور جب عزاذیل کا گزر حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے کے قریب سے ہوتا تو یہ نفرت کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے کو اذیت دیتا۔ کیونکہ عزاذیل یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تبارک و تعالی کے خلیفہ بننے کے لائق صرف میں ہی ہوں۔

اسی وجہ سے وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے کو اذیت دیتا جب عزاذیل حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے کو مارتا۔ تو اندر سے مٹی کے کھنکنے کی آواز آتی۔ چنانچہ جب اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا اور اس کے اندر روح بھی داخل کر دی۔ تو اس دن اللہ تبارک و تعالی نے سب فرشتوں کو حکم دیا۔ سب میرے پاس اکٹھے ہو جاؤ۔

جب سارے فرشتے اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے تو اللہ تبارک و تعالی نے حکم دیا کہ میں زمین پر اپنا ایک بندہ پیدا کرنے والا ہوں۔ جو زمین پر جا کر میرے حکم کی تعمیل کرے گا۔ تو اس وقت فرشتوں نے اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں عرض کی یا رب العالمین یہ بندہ زمین پر جا کر تیرا نافرمان ہو جائے گا۔ ہم تو ہر وقت عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ تو اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ سکتے۔

شیطان کی بغاوت

اس وقت سب فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو۔ تو تمام فرشتے اللہ تبارک و تعالی کے حکم کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے لیے جھک گئے۔ لیکن عزاذیل نے حضرت آدم علیہ السلام کو بغض اور تکبر کی وجہ سے سجدہ نہ کیا۔ اس وقت اللہ تبارک و تعالی نے عزاذیل سے پوچھا کہ تم نے سجدہ کیوں نہیں کیا۔

اس وقت عزاذیل تکبر اور غرور میں آ کر بولنے لگا۔ اے رب العالمین! تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا۔ اور اس پتلے کو مٹی سے پیدا کیا۔ میں اس مٹی کے پتلے سے کئی درجے بہتر ہوں۔ عزاذیل کی یہ بات سن کر اللہ تبارک و تعالی نے عزاذیل کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اور فرمایا تو شیطان مردود ہو چکا ہے۔ تم پر قیامت تک میری لعنت ہوتی رہے گی۔

اس وقت عزاذیل کو اس بات کا علم ہوا۔ کہ لوح محفوظ پر جس شیطان کا ذکر تھا وہ درحقیقت میں ہی ہوں۔ اس طرح جب اعزازیل اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی کی وجہ سے شیطان مردود بن گیا۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ سے کہنے لگا اے رب العالمین میں چاہتا ہوں کہ مجھے قیامت کے دن تک زندہ رہنے کی مہلت دی جائے۔

تو اللہ تبارک و تعالی نے شیطان مردود کی بات مان لی۔ اور اس کو قیامت تک کی مہلت دے دی گئی۔ اس وقت شیطان مردود اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں عرض کرنے لگا۔ میں تیرے بندوں کو راہ سے بھٹکاؤں گا اور ہر طرح سے تیرے بندوں کو تیرے حکم کا نافرمان بناؤں گا اور بہت سارے تیرے بندے میرے شکنجے میں آ کر تیری نافرمانی کریں گے اور گناہوں کے اندر مبتلا ہو جائیں گے۔

اس وقت شیطان مردود کو اللہ تبارک وتعالی نے ارشاد فرمایا کہ تو میرے بندوں کو میری راہ سے بھٹکائے گا اور میری نافرمانیوں کے اندر مبتلا کرے گا۔ میری رحمت بہت بڑی ہے۔ میں اپنے کرم و فضل سے اپنے بندوں کو معاف کرتا جاؤں گا۔

 اس طرح غرور اور تکبر کی سے اعزازیل شیطان مردود بن گیا۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے لعنت کا طوق اس کے گلے میں ڈال کر۔ اس کو آسمان سے نیچے پھینک دیا۔ اور اس طرح شیطان مردود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے دور ہو گیا۔

روایات میں آتا ہے کہ جب قرب قیامت دوسرا سور پھونکا جائے گا۔ تو اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ شیطان کو درد ناک موت عطا فرمائے گا۔ اور اس کے بعد شیطان مردود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیشہ اپنی فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور شیطان مردود کے شر سے ہمیں، ہمارے اہل و عیال اور تمام امت مسلمہ کو محفوظ رکھے۔ آمین

Scroll to Top