فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل اس کے چنگل سے آزاد ہوئے۔ تو سب کے سب حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ حضرت موسی علیہ اسلام کو خداوند کریم کا یہ حکم ہوا کہ وہ چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر اعتکاف کریں۔ اس کے بعد انہیں کتاب توریت دی جائے گی۔ چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر چلے گئے اور بنی اسرائیل کو اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے سپرد کر گئے۔
آپ چالیس دن تک دن بھر روزہ رکھتے اور ساری رات عبادت میں مشغول رہتے۔ جبکہ دوسری طرف بنی اسرائیل میں ایک شخص رہا کرتا تھا۔ جس کا نام سامری تھا۔ جو طبعی طور پر نہایت گمراہ کن آدمی تھا۔ اس کی ماں نے برادری میں رسوائی اور بدنامی کے ڈر سے اس کو پیدا ہوتے ہی پہاڑ کی ایک غار میں چھوڑ دیا تھا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے اس کو اپنی انگلی سے دودھ پلا کر پالا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو پہچانتا تھا۔ اس کا پورا نام موسیٰ سامری ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام بھی موسیٰ ہے۔ موسیٰ سامری کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پالا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعون کے گھر ہوئی تھی۔
مگر خدا کی شان کہ فرعون کے گھر پرورش پانے والے موسی علیہ السلام خدا کے رسول ہوئے اور موسی سامری جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کا پالا ہوا تھا، وہ کافر ہوا۔ جن دنوں حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر اللہ کی عبادت میں مشغول تھے۔ وہیں سامری نے آپ کی غیر موجودگی کو غنیمت جانا اور اس نے بنی اسرائیل کے سونے چاندی کے زیورات کو پگھلا کر اس سے ایک بچھڑا بنایا۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے قدموں کی خاک جو اس کے پاس محفوظ تھی۔ اس نے وہ خاک بچھڑے کے منہ میں ڈال دی تو وہ بچھڑا بولنے لگا۔
پھر سامری نے مجمع عام میں یہ تقریر شروع کر دی کہ اے بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام خدا سے بات کرنے کے لیے کوہ طور پر تشریف لے گئے ہیں۔ لیکن خدا تو ہم لوگوں کے پاس آ گیا ہے اور بچھڑے کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ یہی خدا ہے۔ اس نے ایسی گمراہ کن تقریر کی کہ بنی اسرائیل کو بچھڑے کے خدا ہونے کا یقین آ گیا اور وہ بچھڑے کو پوجنے لگے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت بارہ ہزار آدمیوں کے سوا ساری قوم نے چاندی سونے کے بچھڑے کو بولتا دیکھ کر اس کو خدا مان لیا اور اس کے آگے سربسجود ہو کر اس بچھڑے کو پوجنے لگے۔ چنانچہ سورۃ الاعراف آیت نمبر ایک سو اڑتالیس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایا
اور موسیٰ کے پیچھے اس کی قوم نے اپنے زیورات سے ایک بے جان بچھڑے کو(معبود) بنالیا جس کی گائے جیسی آواز تھی۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ (بچھڑا) ان سے نہ کلام کرتا ہے اور نہ انہیں کوئی ہدایت دیتا ہے؟ انہوں نے اسے (معبود) بنالیا اور وہ ظالم تھے۔
جب چالیس دنوں کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام خدائے عزوجل سے ہم کلام ہو کر اور تورات شریف ساتھ لے کر بستی میں تشریف لائے اور قوم کو بچھڑا پوجھتے ہوئے دیکھا۔ تو آپ پر بے حد غضب اور جلال طاری ہو گیا۔ آپ نے جوش غضب میں اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو ڈانٹا اور فرمانے لگے کہ کیوں تم نے ان لوگوں کو اس کام سے نہیں روکا؟
حضرت ہارون علیہ السلام معذرت کرنے لگے جیسا کہ قرآن مجید میں سورۃ العراف آیت نمبر ایک سو پچاس میں ہے کہا
اے میرے ماں جائے قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں۔ تو دشمنوں کو نہ ہنسا اور مجھے ظالموں میں نہ ملا۔
حضرت ہارون علیہ السلام کی معذرت سن کر حضرت موسی علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے لیے رحمت اور مغفرت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے اس بچھڑے کو توڑ پھوڑ کر اور جلا کر اس کو ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیا۔ پھر اللہ تعالی کا یہ حکم نازل ہوا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی ہے۔ وہ لوگ بچھڑا پوچھنے والوں کو قتل کریں۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چن چن کر اچھے اچھے ستر آدمیوں کو ساتھ لیا اور کوہ طور پر تشریف لے گئے۔ جب لوگ کوہ طور پر طلب معذرت اور استغفار کرنے لگے۔ تو اللہ تعالی کی طرف سے آواز آئی کہ اے بنی اسرائیل میں ہی ہوں میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ میں نے ہی تم لوگوں کو فرعون کے ظلم سے نجات دے کر تم لوگوں فرعون کے ظلم سے بچایا ہے۔ لہذا تم لوگ فقط میری ہی عبادت کرو اور میرے سوا کسی کو مت پوچھو۔
اللہ تعالی کا یہ کلام سن کر یہ ستر آدمی یک زبان ہو کر کہنے لگے کہ اے موسی علیہ السلام ہم ہرگز آپ کی بات نہیں مانیں گے۔ جب تک ہم اللہ تعالی کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔ یہ ستر آدمی اپنی ضد پر بالکل اڑ گئے کہ ہم کو خدا کا دیدار کروائیں۔ ورنہ ہم نہیں مانیں گے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے ان لوگوں کو بہت سمجھایا مگر وہ اپنے مطالبے پر اڑے رہے۔
پھر اللہ تعالی نے اپنے غزب و جلال کا اظہار اس طرح فرمایا کہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے ایک ایسی خوفناک چیخ ماری کہ خوف و دہشت سے ان لوگوں کے دل پھٹ گئے اور یہ ستر آدمی مر گئے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند عالم سے ان لوگوں کے لیے زندہ ہو جانے کی دعا مانگی۔ تو یہ لوگ زندہ ہو گئے۔
ریفرنس
Related Searches
- samri jadugar history in urdu
- samri jadugar kon tha
- islamic quotes from quran