قوم لوط پر اللہ کے عذاب کا واقعہ

qaum e loot

حضرت لوط علیہ السلام اللہ کے ایک برگزیدہ نبی تھے۔ آپ حضرت ابراہیم کے دور زمانہ میں اہل سدوم کی رہنمائی کے لیے نبوت کے منصب پر فائز ہوئے۔ سدوم کے آس پاس پانچ نہایت ہی خوبصورت شہر آباد تھے۔ یہ علاقے نہایت ہی سرسبز و شاداب اور قدرت کی فیاضی کا حسین شاہکار تھا۔ یہاں باغات کی کثرت تھی۔ لہلہاتی کھیتیاں یہاں کی ضروریات سے کہیں زیادہ تھی۔ اردون، شام اور اسرائیل کے درمیان بسا ہوا یہ علاقہ نہایت ہی زرخیز تھا۔

یہی وجہ تھی کہ آس پاس کے بستیوں کے لوگ بھی اپنی معاشی اور غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان بستیوں کی طرف آتے تھے۔ مگر یہ بات سدوم کے لوگوں کو بالکل بھی پسند نہ تھی۔ ان کے خیال میں ان کی بستیوں میں پیدا ہونے والے پھلوں، اناجوں اور سبزیوں پر صرف ان کا ہی حق تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسری بستیوں کے لوگ ان کے علاقے میں آئیں۔

شیطان کا ورغلانہ

ایک دن سدوم کے لوگ اس بات پر غور و فکر کر رہے تھے کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو یہاں آنے سے آخر کیسے روکا جائے؟ کہ ابلیس ایک بزرگ کی شکل میں ان کے محفل میں آیا۔ اور کہا اگر تم ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو، تو میرے کہنے پر عمل کرو۔ ابلیس نے کہا کہ اگر تم ان بستیوں کے لوگوں سے نجات چاہتے ہو جو تمہاری بستی میں آجاتے ہیں۔ تو ایسا کرو کہ جب بھی کوئی شخص تمہارے علاقے میں آئے۔ تو تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ اپنی خواہش پوری کرو۔

اس طرح یہ لوگ اس بستی میں آنا چھوڑ دیں گے۔ پھر اہل سدوم نے ان اس فعل بد کو اپنا پیشہ بنا لیا۔ اپنی نفسانی خواہشات کے لیے مردوں سے بدفعلی اس قوم کا دستور بن گیا تھا۔ یہاں بے حیائی عام ہو گئی تھی۔ حکمراں، سردار، راؤسہ، ہر طبقے میں گھر گھر یہ عمل پھیل گیا۔ بھری محفل میں یہ لوگ اس فحاشی کے کام کو کر کے خوش ہوتے تھے۔

تلمود میں لکھا ہے کہ اہل صدوم اپنی روزمرہ کی زندگی میں سخت ظالم، دھوکے باز اور بد معاملا تھے۔ کوئی مسافر ان کے علاقے سے باخیریت نہ گزر سکتا تھا۔ کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ بارہا ایسا ہوتا تھا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا اور یہ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔

توحید کی دعوت

حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور بدکاری کے اس گھناؤنے عمل سے توبہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت لوط علیہ السلام نے کہا تم بے حیائی کیوں کرتے ہو؟ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت حاصل کرنے کے لیے مرد کی طرف مائل ہوتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔ حضرت لوط اہل سدوم کو دن رات وعظ و نصیحت کیا کرتے۔ لیکن قوم لوط پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ بلکہ وہ بہت فخریہ انداز میں یہ کام کرتے تھے۔

انہیں حضرت لوط علیہ السلام کا سمجھانا بھی برا لگتا تھا۔ لہذا انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تم ہمیں اسی طرح برا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے تو ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے۔حضرت لوط علیہ السلام نے نصیحت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔

عذاب الہی کا مطالبہ

لہذا ایک دن اہل سدوم نے خود ہی عذاب الہی کا مطالبہ کر دیا۔ اللہ تعالی نے اب تک ان کے اس بدترین فحاشی اور بدکاری کو ڈھیل دے رکھی تھی۔ لیکن جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے ایک دن کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔ لہذا ان پر عذاب الہی کا فیصلہ ہو گیا۔ اللہ نے اپنے خاص فرشتوں کو دنیا کی طرف روانہ کر دیا۔ پھر یہ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر تشریف لے آئے۔

حضرت لوط علیہ السلام نے جب ان خوبصورت نوعمر لڑکوں کو دیکھا۔ تو سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ انہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں دیکھ لیا۔ تو نہ جانے وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا نام وائلہ تھا۔ اس نے آپ پر ایمان نہ لایا تھا۔ اور وہ دراصل منافقہ تھی۔ جو کافروں کے ساتھ تھی۔

لہذا اس نے جا کر اہل سدوم کو یہ خبر دے دی کہ لوط کے گھر نوجوان لڑکے مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر بستی والے دوڑتے ہوئے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر پہنچے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے کہا اے قوم یہ جو میری قوم کی لڑکیاں ہیں۔ یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں۔ اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں؟ حضرت لوط علیہ السلام کی بات سن کر وہ لوگ بولے تم بخوبی واقف ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی حاجت نہیں اور جو ہماری اصل چاہت ہے اس سے تم بھی واقف ہو۔

حضرت لوط علیہ السلام نے گھر کے دروازے بند کر دیے اور ان نوجوانوں کو ایک کمرے میں چھپا دیا۔ ان بدکار لوگوں نے آپ کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔ اور ان میں سے کچھ گھر کے دیوار پر بھی چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام اپنے مہمانوں کی عزت کے خیال سے بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے۔

فرشتے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔ جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی بے بسی اور پریشانی کا یہ عالم دیکھا۔ تو حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے یوں فرمایا” “اے لوط! ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ابھی کچھ رات باقی ہے تو اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے”۔

عذاب الہی

اہل سدوم حضرت لوط کے گھر کا دروازہ توڑنے پر آگئے۔ لہذا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے گھر سے باہر نکل کر اپنے پر کا ایک کونا انہیں مارا۔ جس سے ان سب کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے اور بصارت زائل ہو گئی۔ یہ خاص عذاب ان لوگوں کو پہنچا جو حضرت لوط کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام حقیقت حال جان کر مطمئن ہو گئے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رات ہی کو نکل کھڑے ہوئے۔ اس وقت ان کی بیوی بھی ان کے ساتھ تھی۔ لیکن کچھ دور جا کر وہ واپس اپنے قوم کی طرف پلٹ گئی اور قوم کے ساتھ جہنم رسید ہو گئی۔

صبح کا آغاز ہوا تو اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل نے بستی کو اپنے پر سے اکھاڑ دیا اور پھر اپنے بازو پر رکھ کر آسمان پر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ آسمان والوں نے بستی کے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنی۔ پھر اس بستی کو زمین پر دے مارا۔ جس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ جب یہ پتھر ان کو لگتے تو سر پاش پاش ہو جاتے۔

صبح سویرے شروع ہونے والا یہ عذاب اشراق تک پوری بستی کو نیست و نابود کر چکا تھا۔ قوم لوط کی ان خوبصورت بستیوں کو اللہ نے ایک انتہائی بدبودار اور سیاہ جھیل میں تبدیل کر دیا۔ جس کے پانی سے رہتی دنیا تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ سمندر کے اس خاص حصے میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اسے ڈیڈ سی یعنی بحریہ مردار کہا جاتا ہے۔ جو اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع ہے۔

Scroll to Top