پل صراط کا منظر

pul sirat ka manzar

پل صراط کو لے کر بہت سے سوالات ہمارے ذہینوں میں گردش کرتے رہتے ہیں کہ اس روز ہم سب کے ساتھ کیا ہوگا؟ کیا ہم اس سے گزر پائیں گے بھی یہ نہیں؟ پل صراط ہوگی کیسی؟ یہ مرحلہ گزرے گا کیسے؟ اور اس جیسے ڈھیروں سوال جن کا جواب جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ تو ہم کوشش کریں گے کہ آج ہم آپ کو پل صراط سے متعلق مکمل تفصیل سمجھا سکیں۔

دوستو پل صراط کا معاملہ بڑا ہی تشویشناک ہے۔ جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔ جوکہ جہنم کی پشت پر رکھا ہوا ہوگا۔ یہ سخت تشویش ناک مرحلہ ہوگا۔ ہر ایک انسان کو اس پر سے گزرنا پڑے گا۔

حضرت سیدنا حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ ہنس رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: اے نوجوان کیا تو پل صراط سے گزر چکا ہے۔ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پھر فرمایا: کیا تو یہ جانتا ہے کہ تو جنت میں جائے گا یا پھر دوزخ میں؟ اس نے عرض کی کہ نہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا پھر تیرا یہ ہنسنا کیسا ہے؟ یعنی جب ایسی مشکلات تیرے سامنے ہیں اور تجھے اپنی نجات کا علم بھی نہیں۔ تو پھر تو کس خوشی میں ہنستا ہے۔ اس کے بعد کسی نے بھی اس آدمی کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تعجب ہے اس ہنسنے والے پر جس کے پیچھے جہنم ہے۔ اور حیرت ہے اس خوشی منانے والے پر جس کے پیچھے موت ہے۔ ام المومنین حضرت سیدنا حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے جو غزوہ بدر اور حدیبیہ میں حاضر تھے انشاءاللہ وہ آگ میں داخل نہیں ہوں گے۔

پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے اور تم میں سے ایسا کوئی آدمی نہیں ہوگا۔ جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو۔ تمہارے رب کے ذمے پر یہ ضرور ٹھہری ہوئی بات ہے۔

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے نہیں سنا کہ اللہ تعالی نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے اور پھر ہم گھر والوں کو بچا لیں گے اور ظالموں کو اس میں چھوڑ دیں گے۔ گھٹنوں کے بل گرے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ ہر انسان کو دوزخ پر سے گزرنا ہوگا۔ خوف خدا رکھنے والے مسلمان بچا لیے جائیں گے اور مجرم اور ظالم لوگ جہنم میں گر پڑیں گے۔

چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن رواہا رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک بار روتے دیکھ کر ان کی زوجہ محترمہ نے عرض کیا۔ آپ کو کس بات نے رلایا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا مجھے اللہ پاک کا یہ فرمان یاد آگیا۔ اور تم میں کوئی ایسا نہیں ہوگا۔ جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو۔ یوں یہ تو جان لیا کہ میں نے دوزخ پر سے گزرنا ہی گزرنا ہے۔ لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ میں نجات حاصل کر سکوں گا یا پھر جہنم میں گر پڑوں گا۔

پل صراط کا سفر

پل صراط سے گزرنے کا سفر نہایت ہی طویل ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا فضیل بن آیاز رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ پل صراط کا سفر پندرہ ہزار سال کی راہ ہے۔ پانچ ہزار سال اوپر چڑھنے میں لگیں گے۔ پانچ ہزار سال نیچے اترنے میں لگیں گے۔ اور پانچ ہزار سال اس پر سے گزرنے میں لگیں گے۔ پل صراط بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے اور وہ جہنم کی پشت پر بنا ہوا ہے۔ اس پر سے صرف اور صرف پرہیزگار گزر سکیں گے۔

دوستو! اس وقت کیا گزر رہی ہوگی؟ جب میدان قیامت میں سورج ایک میل پر رک کر آگ برسا رہا ہوگا۔ لوگ ننگے بدن اور ننگے پاؤں زمین پر کھڑے ہوں گے۔ ہمارے دماغ کھل رہے ہوں گے۔ کلیجے پھٹ رہے ہوں گے۔ اور دل ابل کر گلے میں آگئے ہوں گے۔ ایسے خوفناک حالات میں پل صراط سے گزرنے کا معاملہ درپیش ہوگا. اس پر سے گزرنے کے لیے دنیاوی اعتبار طاقتور کڑیل نوجوان یا پہلوان کی ضرورت نہیں ہو گی۔

بلکہ حضرت سیدنا فضیل بن حیات رحمتہ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق خوف خدا کے سبب جو لوگ پرہیزگار ہوں گے۔ وہ پل صراط کو باآسانی پار کر لیں گے۔ ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہنم پر ایک پل ہے۔ جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔

اس پر لوہے کے کنڈے اور کانٹے ہیں جو کہ اس آدمی کو پکڑیں گے۔ جسے اللہ پاک چاہے گا۔ لوگ اس پر سے گزریں گے بعض پلک جھپکنے کی طرح، بعض بجلی کی طرح، بعض ہوا کی طر،ح بعض بہترین اور اچھے گھوڑوں اور اونٹوں کی طرح گزریں گے۔

اور فرشتے کہتے ہوں گے: اے پروردگار! سلامتی سے گزار۔ اے پروردگار! سلامتی سے گزار۔ بعض مسلمان نجات پا جائیں گے۔ بعض زخمی ہو کر بھی پار ہو جائیں گے۔ بعض اوندھے ہوں گے اور بعض منہ کے بل جہنم میں گر جائیں گے.

جنت میں جانے کے لیے ہر شخص کو پل صراط پر سے گزرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزر فرمائیں گے۔ پھر انبیاء علیہ السلام، پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اور پھر باقی امتیں گزریں گی۔ جہنم کی آگ تاریک ہوگی اور پل صراط اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہوگا۔ فقط وہی کامیاب ہوگا جس پر اللہ تعالی کا کرم اور فضل ہوگا۔

بعض لوگوں کے لیے پل صراط بال سے زیادہ باریک ہوگا۔ جبکہ پرہیزگاروں کے لیے ایک وسیع وادی کی طرح ہوگا۔ جس پر سے وہ آسانی کے ساتھ گزر جائیں گے۔

میرے عزیز مسلمان بہنو اور بھائیو ہمیں آخرت کی کتنی دشواریاں درپیش ہیں۔ لیکن ہم پھر بھی اس دنیا میں خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ ہم اپنی موت کو بھول چکے ہیں۔ ہم آخرت کی دشواریاں بھول چکے ہیں۔ ہم دنیا کی رنگینیوں میں مست ہو چکے ہیں۔

ہمیں آخرت کی فکر ہی نہیں رہی جب کہ اللہ تعالی بار بار ہمیں منع فرماتا ہے کہ آخرت کا سفر تم لوگوں کو درپیش ہے۔ تم نے پل صراط سے گزرنا ہے۔ یقینا پل صراط ایک دشوار مرحلہ ہوگا۔ پل صراط پر سے وہی گزرے گا جو پرہیزگار ہوگا۔ جس نے اس دنیا میں آخرت کے لیے اعمال اکٹھے کیے ہوں گے۔

میرے عزیز مسلمان بہنو اور بھائیو ذرا سوچیے! کیسا منظر ہوگا۔ اندھیرے میں ڈوبا ہوا۔ جہاں پل صراط کے نیچے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اور بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز راستہ ہو۔ ہم سب اس پر سے کیسے گزریں گے؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے یا نہیں۔ کہ ہم دنیا کی رنگینیوں میں مست ہو چکے ہیں۔

مگر یاد رکھیے یہ دنیا صرف اور صرف ایک دھوکہ ہے۔ تو میرے عزیز مسلمان بہنوں اور بھائیو ابھی ہمارے پاس وقت ہے۔ ابھی ہم کو موت نہیں آئی۔ اور ڈریں اس اندھیری رات سے جب چاروں طرف اندھیرا چھا جائیگا۔ اور موت کی سختیاں ہم پر ڈالی جائیں گی۔ لہذا موت آنے سے پہلے پہلے آخرت کے سفر کا کچھ انتظام کر لیجیے۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتاوا ہو۔

Scroll to Top