رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد عورت کی نماز کے طریقے میں فرق ہے۔ اور یہ کہ ان کے مابین بعض احکام نماز میں بھی فرق ہے۔
پہلی حدیث
حضرت یزید بن ابی حبیب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دو عورتوں کے پاس سے گزر ہوا۔ جو نماز پڑھ رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم سجدہ کرو۔ تو اپنے جسم کا بعض حصہ زمین سے ملا لیا کرو۔ کیونکہ عورت اس میں مرد کی طرح نہیں ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو سجدے میں زمین سے مل کر اور دبی دبی نماز پڑھنی چاہیے۔ جبکہ مرد کے لیے یہ طریقہ ہے کہ اس کے تمام اعضاء کھلے کھلے ہوں۔ معلوم ہوا کہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہے۔ یہ روایت صحابی کا واسطہ مذکور نہ ہونے کی وجہ سے مرسل ہے اور مرسل حدیث جمہور علماء وائمہ کے نزدیک مقبول ہے۔
دوسری حدیث
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب عورت نماز میں بیٹھے۔ تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو پیٹ کو رانوں سے ملا لیا کرے۔ اس طرح کہ زیادہ سے زیادہ پردہ ہو جائے۔ کیونکہ اللہ تعالی اس کو دیکھتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتوں تم گواہ ہو کہ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔
اس میں عورت کے سجدے اور جلسے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ سجدے میں رانوں کو پیٹ سے ملا کر رکھنا چاہیے اور اس کی تائید گزشتہ حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ اس میں بھی سجدے میں زمین سے ملے رہنے کا حکم دیا ہے اور جلسے میں رانوں کو ایک دوسرے سے ملا کر اس طرح رکھنے کا حکم ہے کہ ایک ران دوسری ران پر ہو۔
حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مرد کے لیے یہ طریقہ نہیں ہے۔ لہذا یہ پتا چلا کہ مرد و عورت کی نماز میں فرق ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بات بھی ملتی ہے کہ عورت کو نماز کے ارکان و افعال میں بھی اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ پردہ ہو۔ یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے مگر اس کے شواہد موجود ہے۔
تیسری حدیث
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں عورتیں نماز کس طرح پڑھتی تھیں؟ فرمایا کہ وہ چار زانوں بیٹھتی تھیں۔ پھر انھیں حکم دیا گیا کہ سُرین کے بل بیٹھیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو نماز میں مرد کی طرح پیر بچھا کر نہیں۔ بلکہ سُرین کے بل زمین پر بیٹھنا چاہیے۔ جبکہ مرد کے لیے طریقہ یہ ہے کہ اپنا ایک پیر بچھا کر اسی پر بیٹھ جائے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں میں نماز کا یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ہے۔
اس حدیث کی سند کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت نافع رحمتہ اللہ علیہ سے اور نافع رحمتہ اللہ علیہ نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے اور یہاں تک سند بلاشبہ صحیح ہے اور اعلی درجے کی ہے۔
چوتھی حدیث
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے اللہ تعالی قبول نہیں کرے گا۔ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ بلوغ المرام میں فرماتے ہیں کہ ابن خزیمہ رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ یہ حدیث صاف و سرعی طور پر بتا رہی ہے کہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر مقبول نہیں ہوتی۔ لہذا اس کو اوڑھنی سے پورا سر ڈھانپ لینا چاہیے۔حالانکہ مرد کے لیے یہ حکم نہیں ہے۔
بلکہ علماء نے اس حدیث کی روشنی میں فرمایا ہے کہ عورت کا پورا بدن سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے مستور و پوشیدہ ہونا چاہیے۔ ورنہ نماز نہیں ہوتی۔اس سے معلوم ہوا کہ مرد و عورت کے بعض احکام کی طرح نماز کے احکام بھی مختلف ہے۔
پانچویں حدیث
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عورت کی نماز گھر کے اندر دلان میں افضل ہے۔اس نماز سے جو صحن میں ہو اور اس کی اندر کی کوٹھڑی میں نماز افضل ہے۔ اس نماز سے جو دلان میں ہو۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ عورت کے لیے گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے اور گھر میں بھی جو حصہ جتنا اندر اور مستور ہو وہ اس کے لیے افضل ہے۔
جبکہ یہ معلوم ہوا کہ مرد کے لیے فرائض کی ادائیگی مسجد میں افضل ہے۔ چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ہی فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنن ہدٰی کی تعلیم دی اور بلا شبہ میں سے ایک، ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی ہے۔ جہاں آذان ہوتی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مرد و عورت کے درمیان بعض احکام نماز میں فرق ہے۔
چھٹی حدیث
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مردوں کی صفوں میں بہتر پہلی صف ہے اور بدتر آخری اور عورتوں کی صفوں میں بہتر آخری صف اور بدتر پہلی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت میں مردوں کے ساتھ عورتیں ہوں تو عورتوں کی آخری صف افضل ہے۔
جبکہ اسی حدیث نے یہ بھی بتایا ہے کہ مردوں کی پہلی صف افضل ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ مرد و عورت کی نماز کے بعض احکام مختلف ہیں۔
ساتویں حدیث
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے اور تصفیح (تالی بجانا) عورتوں کے لیے ہے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر امام سے بھول ہو جائے اور اس کو بتانے کی ضرورت ہو یا کوئی آنے والا دروازے پر دستک دے رہا ہو اور اس کو یہ بتانا ہو کہ میں نماز میں مشغول ہوں۔ تو مرد “سبحان اللہ” کہے اور عورت تالی بجائے۔ یہی سنت ہے۔
آٹھویں حدیث
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کی جماعت میں کوئی بھلائی نہیں۔ مگر مسجد میں یا جنازے (نماز) میں۔
اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ عورتوں کی جماعت میں کوئی بھلائی اور خیر کی چیز نہیں۔ لہذا عورتوں کو اپنی جماعت بنانا مکروہ ہے اور اس کے برخلاف مردوں کو جماعت بنا کر نماز پڑھنے کی تاکید ہے۔ معلوم ہوا کہ مرد و عورت کی نماز کے احکام میں فرق ہے اور آخر میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ “مگر مسجد یا جنازے کی نماز میں” اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورتیں جماعت کریں یا جنازے کی نماز میں کریں۔
تو یہ درست ہے اور ظاہر ہے کہ مسجد میں عورتیں بھلا مردوں کی جماعت نہیں کر سکتیں۔ بلکہ مردوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ صرف ایک صورت میں ان کو جماعت کی اجازت ہے کہ جنازے کی نماز میں عورتیں جماعت کر لیں۔