حضرت عمر فاروق ؓ اور نئی دلہن کا واقعہ

حضرت عمر فاروق ؓ اور نئی دلہن کا واقعہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ایک دفعہ گشت کر رہے تھے کہ آپ کو ایک گھر میں سے گنگنانے کی آواز سنائی دی۔ جیسے کوئی کچھ گا رہا ہو اور وہ آواز ایک لڑکی کی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ گھر پر آئے دستک دی اور پوچھا کہ گھر کے اندر کون ہے؟ تو وہ لڑکی امیر المومنین کی آواز پہچان گئی اور روب کی وجہ سے سہم گئی۔ وہ اتنا ڈر گئی کہ وہ جواب نہ دے سکی۔

اس کے جواب نہ دینے پر آپ نے ذرا ڈانٹ کر آواز دی کہ اس گھر کے اندر کون ہے؟ لڑکی اور زیادہ ڈر گئی اور کوئی جواب نہ دیا۔ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ گھر میں داخل ہو گئے۔ تاکہ دیکھ سکیں کہ اندر کیا بات ہے؟ گھر میں داخل ہو کر معلوم ہوا کہ گھر میں ایک نوجوان لڑکی ہے اور اس کے علاوہ پورے گھر میں کوئی نہیں تھا۔

تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا
اے لڑکی تو کون ہے؟
اور کیوں گا رہی تھی؟
تجھے معلوم نہیں کہ اسلام نے عورت کی آواز کو بھی پردے کا حکم دیا ہے؟
اور تو اتنی زور سے بول رہی تھی کہ تیری آواز گھر سے باہر تک سنائی دے رہی تھی۔ کیا تو نہیں سمجھتی کہ تو ایسا کرنے سے گنہگار ہوئی ہے؟

اب اس لڑکی نے جرات کی۔ اسے بھی بھروسہ تھا کہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ عادل کامل ہیں۔ میں جو کہوں وہ کبھی بھی جذبات میں آ کر فیصلہ نہیں کریں گے۔ لڑکی نے کہا امیر المومنین اصل بات یہ ہے کہ میں نوجوان لڑکی ہوں اور بھرپور جوانی میں ہوں اور ابھی پندرہ دن پہلے میری شادی ہوئی ہے۔

میرا خاوند بھی نوجوان ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو فلاں جگہ پر فوج کے ساتھ بھیج دیا ہے۔ میں اس کی جدائی میں یہ عاشقانہ اشعار پڑھ رہی تھی اور کوئی بات نہیں تھی۔ نہ تو میں زانیہ ہوں اور نہ ہی بدکار ہوں۔ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تیرا لہجہ بتا رہا ہے کہ حقیقتا بات یہی ہے۔

پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی اہلیہ کے پاس آئے اور پوچھا اگر لڑکی کی شادی ہو اور نوجوان ہو اور اس کا خاوند بھی نوجوان ہو اور دونوں میں جدائی کر دی جائے۔ تو وہ کتنے دن تک جدا رہ سکتے ہیں۔ تو آپ کی زوجہ نے فرمایا تین مہینے سے زیادہ وہ نوجوان لڑکی صبر نہیں کر سکتی۔ یہ الگ چیز ہے کہ اس کا دین مضبوط ہو، اس میں حیا ہو، اور وہ اپنے اخلاق کی وجہ سے گناہ سے دور رہے۔

تو فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ سن کر فل فور حکم نامۂ جاری کیا کہ جن شادی شدہ نوجوانوں کو جنگ پر بھیجا گیا ہے۔ انہیں تین مہینے کے اندر واپس کیا جائے اور ان کی جگہ دوسرے سپاہیوں کو بھیج دیا جائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی جاری کردہ اس قانون پر آج تک عمل درآمد ہو رہا ہے۔

Scroll to Top