آپ علیہ سلام اللہ تبارک وتعالی کے برگزیدہ نبی تھے اور حضرت داؤد علیہ سلام کے بیٹے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح اللہ تبارک و تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی بہت سے معجزات عطا کر رکھے تھے۔ آپ جانوروں کی بولیاں سمجھ لیتے تھے، ہوا پر آپ کا قابو تھا۔ آپ علیہ سلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ کی حکومت صرف انسانوں پر نہیں تھی بلکہ جن بھی آپ کے تابع تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اللہ نے ان کے لیے دنیا کو وسیع کر دیا اور دنیا ان کے ہاتھ میں ہو گئی۔ تو کہنے لگے اے میرے معبود اگر مجھے اجازت دیں کہ میں تیری تمام مخلوقات کو پورے سال کھلاؤں (تو بہتر ہوتا)۔
تو اللہ تعالی نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ تو اس پر ہرگز قدرت نہیں رکھتا۔ پھر درخواست کی یاالہی صرف ایک ہفتہ۔ پھر جواب ملا کہ تو اس پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ پھر درخواست کی یا الہی ایک دن فرمایا اس کی بھی قدرت نہیں رکھتا۔ بہرحال اللہ تبارک وتعالی نے ایک دن کی اجازت دے دی۔
تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تمام جنات اور انسانوں کو حکم دیا کہ وہ تمام کے تمام ان چیزوں کو جو زمین پر حلال ہیں یعنی گائے, بیل, بکریاں, دنبے وغیرہ اور ان تمام کو جو جنس حیوان میں سے ہیں یعنی پرندے وغیرہ۔ جب وہ جن و انس نے ان چیزوں کو جمع کر لیا۔ تو اس کے لیے بڑی بڑی دیگیں تیار کی گئیں۔
پھر ان جانوروں کو ذبح کیا گیا اور ان کو پکایا گیا اور ہوا کو حکم دیا گیا کہ کھانے پر چلیں تاکہ خراب نہ ہو۔ پھر کھانوں کو جنگل میں پھیلا دیا گیا۔ اس کا طول ایک مہینے کی مسافت کے برابر تھا اور اس کا عرض بھی اتنا ہی تھا۔ پھر اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی اے سلیمان علیہ سلام تو مخلوقات میں سے کس سے دعوت شروع کرے گا۔
تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ میں دریا کے جانوروں سے شروع کروں گا۔ تو اللہ تعالی نے بحر محیط کی ایک مچھلی کو حکم دیا کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی ضیافت میں سے کھائے۔ چنانچہ اس مچھلی نے سر اٹھایا اور کہا اے سلیمان علیہ السلام میں نے سنا ہے کہ تو نے ضیافت کا دروازہ کھول دیا ہے اور میری ضیافت تو کرے گا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا لے اور کھانا شروع کر۔ چنانچہ وہ مچھلی آگے بڑھی اور دسترخوان کے شروع سے کھانے لگی۔ مچھلی نے اس قدر کھایا کہ ایک ہی دفعہ میں سارا کھانا صاف کر دیا۔ اس مچھلی نے پھر آواز لگائی کہ اے سلیمان مجھے کھانا کھلاؤ اور میری بھوک مٹاؤ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا تو تو سارا کھا گئی اور اب بھی تیرا پیٹ نہیں بھرا۔
تو مچھلی نے کہا کیا اسی طرح میزبان کا جواب ہوتا ہے؟ اپنے مہمان کے لیے۔ اے سلیمان علیہ السلام آپ خوب جان لیجیے کہ میرے لیے ہر روز اس طرح جتنا تو نے پکایا۔ دن میں تین مرتبہ متعین ہے اور آج میرے کھانے کے روکنے کا سبب تو بنا اور تو نے میرے کھانے میں کمی کر دی۔ اسی وقت حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے اور کہنے لگے پاک ہے وہ ذات جو کفالت کرنے والی ہے۔مخلوق کی روزیوں کے ساتھ جہاں سے مخلوق جانتی بھی نہیں کہ کہاں سے آتا ہے۔
واقعہ کا سبق
بے شک ہمارا رازق صرف اور صرف اللہ ہے۔ چنانچہ ہمیں صرف رزق اسی سے مانگنا چاہیے اور کبھی اپنی مال و دولت اور وزارت و صدارت کے بل بوتے پر انسانوں پر غرور نہیں کرنا چاہیے کہ میرے پاس اتنا مال ہے،منصب ہے۔ اس لیے مجھے رزق کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اللہ سے مانگتے رہنا چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اس واقعہ سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین