بیان کیا جاتا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے۔ تو زمین پر رہنے والے مختلف حیوانات ان کی زیارت اور سلام کے لیے حاضر ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے آنے والے جانوروں کو ان کی حیثیت اور منظرت کے مطابق دعا فرمائی۔ ہرنوں کا ایک غول جب آدم علیہ السلام کو سلام کے لیے ان کے پاس آیا۔
تو حضرت آدم علیہ السلام نے ان کی پشت پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور ان کے حق میں دعا فرمائی۔ جس کے نتیجے میں حق تعالی نے انہیں نافَۂ مُشک عطا فرمایا۔
جب یہ ہرن نافَۂ مُشک لے کر اپنی قوم میں گئے۔ تو دوسرے ہرنوں نے کہا آج ہمیں تم سے عجیب سی خوشبو محسوس ہو رہی ہے۔ جو آج سے قبل خوشبو تم میں نہیں پائی جاتی تھی۔ یہ خوشبو کہاں سے لائے ہو؟ ہرنوں نے کہا ہم خدا کے بندے حضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کے لیے گئے تھے۔ انہوں نے پشت پر دست شفقت پھیرا اور ہمارے حق میں دعا فرمائی۔
جس کی بدولت اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں نافَۂ مُشک کا حامل بنا دیا۔ جب دوسری ہرنوں نے یہ سنا تو انہوں نے کہا ہم بھی آدم علیہ السلام کے پاس نافعہ مشک حاصل کرنے کو جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئے اور ان کو سلام کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ان کی پشت پر شفقت کا ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔
مگر ان میں وہ خوشبو پیدا نہ ہوئی۔ انہوں نے واپس آ کر ہرنوں کی پہلی ٹولی سے کہا ہم نے بھی آدم علیہ السلام کی زیارت کی۔ انہوں نے ہماری پشت پر دست شفقت پھیرا اور دعا بھی کی۔ مگر ہمارے اندر وہ خوشبو پیدا نہیں ہوئی۔ جو تمہارے اندر ہے۔
تو دوسرے ہرنوں نے جواب دیا ہماری اور تمہاری نیت میں فرق تھا۔ تم نے حضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کو خلوص نیت سے انجام نہیں دیا۔ بلکہ تمہاری نیت یہ تھی کہ پروردگار تم کو بھی نافعہ مشک عطا کرے۔ اس لیے تم محروم رہے اور ہماری نیت خالص تھی۔ لہذا حق تعالی نے ہمیں اس خوشبو سے نوازا اور یہ خوشبو قیامت تک ان کی نسلوں میں باقی اور قائم رہے گی۔
پس جو بھی اپنے عمل کو خلوص نیت سے اللہ کے لیے انجام دے گا۔ تو اس کے آثار اور برکات اس کے لیے اور اسی طرح اس کے لواحقین کے لیے روز قیامت تک قائم رہیں گے۔