غزوہ خیبر، اس غزوہ کو کہتے ہیں جو سات ہجری کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان لڑی گئی۔ کیونکہ یہود نے دوسرے عرب قبائل کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازش کر کے امن معاہدے کو توڑا تھا۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا۔ جو مدینہ سے ایک سو پچاس کلومیٹر شمال میں واقع تھا۔ اس جنگ میں دس ہزار یہودیوں کا سپہ سالار مرحب نامی تھا۔ جس کا مقابلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف سولہ سو مسلمانوں کے ساتھ کر رہے تھے۔
ان کا قلعہ ایک اونچی پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔ جس کا دفاع اور دیوار بہت ہی مضبوط تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر سے قبل ہی اس علاقے کے پانچ یہودی قلعوں کو فتح کر لیا تھا۔ لیکن خیبر کا محاصرہ کئی دنوں تک کرنے کے باوجود مسلمان اسے فتح کرنے میں ناکام ہو رہے تھے۔
مگر وہ مضبوط اور زبردست قلعہ فتح نہ ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر کو لشکر کا امیر بنایا اور حملہ کے لیے بھیجا۔ لیکن وہ شہید ہو گئے۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو امیر لشکر بنایا اور قلعہ کی طرف روانہ کیا۔ لیکن وہ بھی ناکام لوٹے اور سپاہیوں میں یہودیوں کے جنگجوؤں اور سپاہیوں کا خوف بیٹھ گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طبیعت کچھ ناساز محسوس ہوئی تو آپ آرام کرنے چلے گئے۔ رات میں جب حالت بہتر ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ دن میں کیا ہوا؟ لہذا صحابہ نے آپ کو سارا حال سنایا۔ اس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل میں الم اس کو دوں گا۔ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔
وہ کرار ہے اور میدان سے فرار نہ ہوگا۔ جب تک اللہ اس کے ذریعہ خیبر فتح نہ کروا دے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس رات کسی کو نیند نہ آئی اور سب اضطراب میں تھے۔ صبح ہوتے ہی تمام لوگ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے۔
سب کی یہی خواہش تھی کہ جھنڈا ان کو ملے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ علی کہاں ہیں؟ کسی نے بتایا کہ علی کی آنکھ میں بہت تکلیف ہے۔ اس لیے وہ آرام کر رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں بلاؤ۔
لہذا حضرت علی تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن کو حضرت علی کی آنکھ پر لگایا۔ پھر آپ کے حق میں دعا کی اور دعا کرتے ہی وہ ایسے شفایاب ہو گئے گویا ان کو کبھی کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈے کو مولا علی علیہ السلام کے ہاتھ میں دیا اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا “اے علی! پہلے ان سے نرمی سے بات کرنا اور انہیں اسلام کی دعوت دینا۔ خدا کی قسم اگر تمہارے ذریعہ ایک آدمی بھی ہدایت پر آگیا۔ تو یہ اللہ کی راہ میں ایک سرخ اونٹ صدقہ کرنے سے بھی بہتر ہے”۔
جب مولا علی علیہ السلام لشکر سمیت قلعہ خیبر کے دروازے تک پہنچے تو یہودیوں کی طرف سے مرحب رجس پڑتا ہوا باہر آیا۔ تو مسلمانوں کے+ لشکر کی طرف سے خود مولا علی تشریف لے گئے اور آپ نے بھی یوں رجس پڑھا کہ میں وہ ہوں کہ جس کی ماں نے اس کا نام حیدر یعنی شیر رکھا ہے۔
مرحب نہایت ہی قد آور اور چٹان جیسا وحشی جنگجو تھا۔ جس کی ہیبت سپاہیوں کے دل و دماغ میں بیٹھی ہوئی تھی اور یہ مقابلہ نہایت ہی سخت نظر آرہا تھا۔ لیکن شیر خدا حضرت علی نے چند ہی ضرب اور ذوالفقار کے زور دار وار سے کچھ ہی لمحوں میں مرحب کا کام تمام کر دیا۔
اس کے بعد اسلامی لشکر نعر تکبیر سے گونج اٹھا۔ لہذا یہودی لشکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور گھمسان لڑائی شروع ہو گئی۔ جس میں مولائے کائنات علی ابن ابی طالب کی بہادری اور جرات مندانہ لڑائی اپنی مثال آپ ہے۔ کچھ ہی دیر بعد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے ساتھیوں سمیت تشریف لے آئے۔
تب بھی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے قلعہ کے دروازے کے پاس حضرت علی پر وار کیا۔ جس سے حضرت علی کی ڈھال گر گئی۔ لہذا آپ نے اپنے بازون کے زور سے قلعہ کے ایک دروازے کو ہی اکھاڑ لیا اور اسے اپنی ڈھال بنا کر لڑنے لگے۔ یہاں تک کہ قلعہ آپ کے ہاتھوں سے فتح ہوا۔
مختلف روایتوں کے مطابق بیان کیا جاتا ہے کہ بعد میں چالیس صحابہ نے اسے مل کر اٹھایا تھا۔ محققین نے اس دروازے کا وزن سو من لکھا ہے۔ اس فتح کی وجہ سے شیر خدا حضرت علی کو فاتح خیبر بھی کہا جانے لگا۔ جو آپ کی شجاعت اور جرات کی ایک مثال ہے۔ اللہ کی طرف سے آپ کو بہترین قوت عطا کی گئی تھی۔ جسے آپ نے جہاد فی سبیل اللہ میں استعمال کیا اور فتح یاب ہوئے۔