آخرت کی تیاری کا ایمان افروز واقعہ

ایک سیٹھ صاحب کو انگور بہت پسند تھے۔ صبح اپنی فیکٹری جاتے ہوئے انہیں راستے میں اچھے انگور نظر آئے۔ تو انہوں نے گاڑی روکی اور دو کلو انگور خرید کر ملازم کے ہاتھ گھر بھجوا دیے۔ پھر خود تجارت کی غرض سے چلا گیا۔ دوپہر کو کھانا کھانے کے لیے گھر آئے۔ تو دسترخوان پر سب کچھ موجود تھا۔ مگر انگور نہ تھے۔

جب صاحب نے گھر والوں سے انگوروں کا پوچھا۔ تو گھر والوں نے بتایا کہ وہ تو بچوں نے کھا لیے۔ کچھ ہم نے چکھ لیے۔ ویسے تو بظاہر یہ معمولی واقعہ تھا۔ مگر بعض معمولی جھٹکے انسان کو بہت بڑا سبق دے جاتے ہیں۔ وہ صاحب فورا دسترخوان سے اٹھے اپنی تجوری کھولی نوٹوں کی بہت سی گٹھیاں نکال کر بیگ میں ڈال کر گھر سے باہر نکل گئے۔

سب سے پہلے وہ ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے پاس گئے۔ کئی پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ منتخب کیا۔ فورا اس کی قیمت کی پھر ٹھیکیدار اور انجینئر کو بلا لیا۔ جگہ کا عارضی نقشہ بنوا کر ٹھیکیدار کو مسجد کی تعمیر کے لیے کافی رقم دے دی اور کہا کہ دو گھنٹے میں کھدائی شروع ہونی چاہیے۔ وہ یہ سب کام اس طرح تیزی سے کر رہے تھے۔ جیسے آج مغرب کی اذان تک ان کی زندگی باقی نہ ہو۔

ان کاموں میں ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں۔ مگر جب دل میں اخلاص کی قوت ہو ہاتھ اور کنجوسی سے آزاد ہو۔ تو مہینوں کے کام منٹوں میں ہی ہو جاتے ہیں۔ یہی صورتحال تاجر صاحب کے ساتھ بھی ہوئی۔ اخلاص اور شوق کی طاقت نے چند گھنٹوں میں سارے کام کرا دیے۔ بہترین موقع کا پلاٹ بھی مل گیا اچھا انجینئر اور اچھا ٹھیکیدار بھی ہاتھ آ گیا اور مغرب کی اذان سے پہلے پہلے کھدائی اور تعمیر کا کام بھی شروع ہو گیا۔

شام کو وہ صاحب واپس گھر آئے۔ تو گھر والوں نے پوچھا کہ آج آپ کھانا چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟ کہنے لگے کہ اپنے اصلی گھر اور اصلی رہائش گاہ کا انتظام کرنے اور وہاں کھانے پینے کا انتظام بنانے گیا تھا۔ الحمدللہ سارا انتظام ہو گیا۔ اب سکون سے مر سکتا ہوں۔ آپ لوگوں نے تو میری زندگی میں ہی انگور کے چار دانے میرے لیے چھوڑنا گوارا نہ کیے اور میں اپنا سب کچھ آپ لوگوں کے لیے چھوڑ کر جا رہا تھا۔

میرے مرنے کے بعد آپ نے مجھے کیا بھیجنا تھا۔ اس لیے اب میں نے خود ہی اپنے مال کا ایک بڑا حصہ اپنے لیے آگے بھیج دیا ہے۔ اس پر میرا دل بہت سکون محسوس کر رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اللہ کے لیے مسجد بنائے۔ اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں تو ہم نے اپنا گھر بنا لیا۔ کیا جنت میں گھر بنانے کی تیاری کر لی گئی ہے؟

ہو سکے تو ایک مسجد بنائیے۔ مسجد نہ نہ بنوا سکیں تو مسجد میں حصہ ملائیے۔ کیونکہ ہم رہیں یا نہ رہیں قیامت تک سجدے ہوتے رہیں گے۔ انشاءاللہ قبر میں بھی ثواب کے تحفے ملتے رہیں گے۔ اللہ پاک واقعہ سے سبق حاصل کرکہ عمل کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین

Scroll to Top