بیان کیا جاتا ہے کہ ایک عابد نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگ ایک درخت کی پوجا کرتے ہیں۔ اسے یہ دیکھ کر بے حد غصہ آیا۔ وہ گھر گیا اور اس نے کلہاڑا اٹھایا اور درخت کاٹنے کے لیے چل پڑا۔ ابھی وہ کچھ دور ہی گیا تھا کہ شیطان انسانی صورت میں اس کے سامنے آیا اور کہنے لگا بندہ خدا تم یہ فضول کام کیوں کرنا چاہتے ہو۔
اس درخت کو کاٹنے سے تمہیں کیا فائدہ ملے گا؟ عابد کو اس کی بات پر سخت ناگوار گزری۔ دونوں میں بحث اس قدر بڑھی کہ آخر کار دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ چند لمحوں میں شیطان گر گیا اور عابد اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔
شیطان نے جب اپنی شکست دیکھی تو کہنے لگا۔ ہم دونوں آپس میں سمجھوتہ بھی کر سکتے ہیں۔ تم اس درخت کو نہ کاٹو۔ اس کے بدلے میں میں وعدہ کرتا ہوں کہ روزانہ دو دینار تمہیں دیا کروں گا۔ اور وہ دینار روزانہ تمہارے سرہانے کے نیچے مل جائیں گے۔ ان سے اپنی ضروریات پوری کرنا اور غریبوں کی مدد بھی کرنا۔
اس بات پر عابد راضی ہوگیا اور درخت کاٹے بغیر واپس آگیا۔ دو دن تک تو عابد کے سرہانے دو دینار ملتے رہے۔ لیکن تیسرے دن سے یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ عابد نے کچھ دیر انتظار کیا۔ پھر غصے سے بھرا کلہاڑا لے کر درخت کاٹنے کے لئے چل پڑا۔ راستے میں پھر شیطان کھڑا نظر آیا۔ شیطان نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟
عابد نے کہا درخت کاٹنے جا رہا ہوں۔ شیطان نے کہا میں تمہیں ہرگز درخت کاٹنے نہیں دوں گا۔ وہ دونوں ایک بار پھر گتھم گتھا ہو گئے۔ لیکن اس بار شیطان نے عابد شخص کو چت کر دیا۔ اور اس کے سینے پر چڑھ گیا اور کہا اگر تو نے درخت کاٹنے کا سوچا بھی تو میں تجھے جان سے مار دوں گا۔
عابد نے ڈر کے مارے کہا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ اب درخت کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔ بس تم مجھ کو چھوڑ دو اور یہ بھی بتاؤ کہ پہلی بار تم ڈھیر ہو گئے تھے۔ مگر آج تم نے مجھے چت کیسے کر دیا؟
شیطان نے کہا پہلی بار تم خدا کے لیے درخت کاٹنے جا رہے تھے۔ اس لیے میں ڈھیر ہو گیا تھا۔ کیونکہ میرا بس ان لوگوں پر نہیں چلتا جو خلوص دل سے اللہ کے لیے عمل کرتے ہیں۔ مگر اس مرتبہ تم اللہ کے لیے نہیں نکلے۔ بلکہ اس دفعہتمہارا سارا غصہ اس لیے تھا کہ تمہیں دینار ملنا بند ہو گئے تھے۔ اس لیے تم ہار گئے اور میں جیت گیا۔