منسا موسیٰ – تاریخ انسانی کا امیر ترین شخص

منسا موسی سلطنت مالی کا سب سے مشہور اور نیک نام حکمران رہا ہے۔ جس نے سن تیرہ سو بارہ عیسوی سے، سن تیرہ سو سینتیس تک حکومت کی۔ اسے نہ صرف قرون وسطیٰ بلکہ انسانی تاریخ کا سب سے دولت مند فرد قرار دیا گیا ہے۔ اس کے عہد میں مالی کی سلطنت اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گئی تھی اور سلطنت مالی کی حدود مشرق میں گاد اور مغرب میں بحری اوقیانوس اور شمال میں تفاذہ کی نمک کی کانوں سے جنوب میں ساحلی جنگلات تک پھیل گئی۔

آج کا ملتانیہ، سنیگال، گیمبیا، گنی، برقینہ، فاسو، مالی، نائجر چارڈ اور نائجیریا وغیرہ کا علاقہ اس وقت منسا موسی کی سلطنت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ منسا موسی امیر آف مالی، لارڈ آف دی مائنز، آف ونگارا جیسے القابات سے مشہور تھا۔

انہوں نے مالی کی سلطنت پر اس دور میں حکومت کی جب وہ معدنیات اور بطور خاص سونے کے ذخیرے سے مالا مال تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں سونے کی مانگ اپنے عروج پر تھی۔ ان کا اصل نام موسیٰ کیتا اول تھا۔ مگر تخت نشین ہونے کے بعد وہ منسا کہلائے۔ جس کا مطلب بادشاہ ہے۔

منسا موسیٰ کی دولت کا آج کے دور میں تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ پھر بھی ایک اندازے کے مطابق ان کی دولت تقریبا چار سو ارب امریکی ڈالر کے برابر تھی۔

منسا موسیٰ کا سفر حج

منسا موسیٰ کے دور حکومت کی مشہور ترین کہانی ان کا دورہ حج ہے۔ اس سفر میں منسا موسی نے تقریبا ساڑھے چھ ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب منسا موسی کو دیکھنے کی خواہش رکھنے والے ان سے ملنے گئے۔ تو ان کے قافلے کو ہی دیکھ کر دھنگ رہ گئے۔

لوگوں نے دیکھا کہ منسا موسی کے کارواں میں تقریبا ساٹھ ہزار افراد شامل تھے۔ جن میں سے بارہ ہزار ان کے ذاتی پیروکار تھے۔ منسا موسیٰ جس گھوڑے پر سوار تھے۔ اس کے آگے پانچ سو افراد کا دستہ چل رہا تھا۔ جن کے ہاتھوں میں سونے کی چھڑیاں تھیں۔

منسا کے قافلے کے یہ پیش روح بہترین ریشم کا لباس استعمال کرتے تھے۔ یہ سفر اتنا پرشوق تھا کہ اس کی وجہ سے منسا موسی کی شہرت نہ صرف اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئی۔ بلکہ تاجروں کے ذریعے یورپ تک منسا موسی کا نام پہنچ گیا۔

سفر میں منسا موسی نے اس کثرت سے سونا خرچ کیا کہ مصر میں سونے کی قیمتیں کئی سال تک گری رہیں۔ اس زمانے میں غالبا مغربی افریقہ کے اس علاقے میں سونا بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ جہاں منسا موسی کی حکومت تھی۔ حج کے اس سفر میں منسا موسی کے ہمراہ تقریبا ساٹھ ہزار فوجی اور بارہ ہزار غلام تھے۔ جنہوں نے چار چار پاؤنڈ سونا اٹھا رکھا تھا۔

اس کے علاوہ ان کے اونٹوں پر بھی سونا لدا ہوا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق منسا موسی نے تقریبا ایک سو پچیس ٹن سونا اس سفر میں خرچ کیا۔ اس سفر کے دوران وہ جہاں سے بھی گزرا غرباء اور مساکین کی مدد کرتا رہا اور ہر جمعہ کو ایک نئی مسجد بنواتا رہا۔

فراخ دلی

منسا موسی اس قدر فراخ دل تھے کہ جب مصر سے گزرے تو یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے غریبوں کو اتنے دیے کہ علاقے میں افراط زر ہو گیا۔ منسا موسیٰ مکہ معظمہ میں ایک اندلسی معمار ابو اسحاق ابراہیم الساحلی کو اپنے ساتھ لایا۔

جس نے بادشاہ کے حکم سے گاد اور ٹمبکٹو میں پختہ اینٹوں کی دو مساجد اور ٹمبکٹو میں ایک محل تعمیر کیا۔ منسا موسی کے زمانے میں مالی کے پہلی مرتبہ بیرونی ممالک سے تعلقات قائم ہوئے۔

منسہ موسی کے بعد مالی کی سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ ایک ایک کر کے تمام علاقے ہاتھ سے نکل گئے اور تقریبا سن اٹھارہ سو چون میں شہر گاد کے سونگائی حکمران نے مالی کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔

مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اسی منسا موسی کے بھائی سلیمان بن ابوبکر کی حکومت کے دوران مالی کی مملکت میں ایک سال سے زیادہ قیام کیا اور ٹمبکٹو کی بھی سیر کی اور علاقے کی مالی خوشحالی اور امن و امان کی تعریف بھی کی۔

ریسرچ

دو ہزار بارہ میں سلیبرٹی نیٹ ورتھ نامی ریسرچ سامنے آئی۔ جس میں دنیا کے پچیس امیر ترین افراد کا ذکر کیا گیا ہے۔ منسا موسی کا نام اس فہرست میں آج بھی سب سے اوپر ہے۔ جبکہ ان کے بعد بل گیٹس کا نمبر ہے۔

اثاثوں کی کل مالیت

منسا موسی کے اثاثوں کی کل مالیت ان کے انتقال کے وقت تقریبا چار سو بلین ڈالر تھی۔ جس کا آج تک کوئی مقابلہ نہیں۔ منسا موسی کی اس بے تحاشہ دولت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مالی آدھی سے زیادہ دنیا کو نمک اور سونا مہیا کرتا تھا۔

Scroll to Top