یزید کون تھا اور اس کی ہلاکت کیسے ہوئی؟

یزید ملعون تاریخ اسلام کا وہ بدترین شخص ہے۔ جس کے ہاتھ اہل بیت رسول کے خون سے رنگے ہیں۔ اس کی سیاہ شخصیت اور کارنامے اسے فرعون، نمرود اور قارون کے صف میں کھڑا کر دیتی ہے۔ جس کا انجام آخرت میں بھیانک ترین اور باعث عبرت ہوگا۔ اس نے مدینہ میں فساد برپا کیا، کعبہ کو نظر آتش کیا اور سینکڑوں صحابہ کو اپنی بیعت توڑنے کی وجہ سے شہید کیا۔

لیکن اس کا سیاہ ترین کارنامہ امام عالی مقام حضرت حسین ابن علی علیہ السلام اور اہل بیت رسول کو شہید کرنا ہے۔ یزید ملعون کا پورا نام یزید بن معاویہ تھا۔ جس کی ولادت پچیس ہجری یعنی سن چھ سو پینتالیس عیسوی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں ہوئی۔

جب سن ساٹھ ہجری میں حضرت معاویہ ابن ابو سفیان نے امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بغاوت کر کے شام میں بنو امیہ حکومت کی بنیاد رکھی۔ تو اس وقت یزید نوجوان تھا۔ لہذا حضرت معاویہ یزید ملعون کو اپنے بعد حاکم بنانے کی کوشش میں لگ گئے اور پھر صلح حسن کے بعد جب پوری حکومت معاویہ ابن ابو سفیان کے ہاتھوں آئی تو انہوں نے شام، عراق، مصر اور حرم میں اپنی حمایتیوں کے ذریعہ خطبوں میں یزید کا نام لینے کا حکم دیا۔

نیز تلواروں کے زور اور دیناروں کی تھیلیوں کے ذریعہ گورنروں اور سپہ سالاروں کو بھی یزید کا حمایتی بنایا گیا۔ امام حسن علیہ السلام کے ساتھ کی جانے والی شرائط کو توڑ دیا گیا۔ سن ساٹھ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشین گوئی کے مطابق یزید تخت نشیں ہوتا ہے اور تاریخ اسلام کا ایک سیاہ باب کھل جاتا ہے۔ کچھ اصحاب رسول یزید کی بیعت سے سری طور پر انکار کر دیتے ہیں۔ جن میں اس وقت کے سب سے افضل شخص اور نواسہ رسول حضرت حسین ابن علی بھی شامل تھے۔

اس بات کا بہت زیادہ اندیشہ تھا کہ کہیں اسلامی حکومت کے اندر بغاوت یا پھوٹ نہ پڑ جاۓ۔ اور لوگ حضرت حسین ابن علی کو اپنا رہنما بنا کر خروج نہ کر دے۔ اس جرم میں امام حسین اور اہل بیت رسول کو سن اکسٹھ ہجری میں میدان کربلا میں یزید کے حکم سے شہید کر دیا جاتا ہے اور ان کے سر کو بطور عبرت شام کے بازاروں میں نیزوں پر بلند کیا جاتا ہے اور لوگوں کو دکھایا جاتا ہے کہ بغاوت کا کیا انجام ہوتا ہے۔

یزید کی ذاتی زندگی کو مورخین نے فحاشی، برائی، خباثت اور سرکشی سے بھرا ہوا لکھا ہے۔ امام تبری نے نقل کیا کہ حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اصحاب کی ایک جماعت نے جب یزید کے متعلق معلومات کی اور اس کے دربار پہنچے، تو اسے ایک سرکش حاکم پایا۔ لہذا حضرت عبداللہ بن حنظلہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم یزید کے دربار سے اس حال میں باہر نکلے کہ ہمیں آسمان سے پتھر برسنے کا خوف تھا۔

وہ ایک بے دین شراب خور موسیقار کا چاہنے والا کتوں بندروں سے کھیلنے والا اور زنا کرنے والا شخص تھا۔ علامہ مسعودی لکھتے ہیں کہ یزید کی زندگی فرعون کی مثل تھی۔ شہادت حسین کے بعد بھی یزید ملعون نے لوگوں پر بے دریغ ظلم کیے۔ جب مدینہ والوں نے اس کی بیت توڑی تو اس نے شامی لشکر کو مدینہ بھیج۔ ان تین دنوں میں سپاہیوں نے مدینہ والوں پر مسلسل ظلم کیے۔

صحابہ کرام کو قتل کیا گیا۔ لوگوں کے مال لوٹے، عورتوں کے ساتھ زنا کیا اور مسجد نبوی میں اپنے گھوڑے باندھے۔ پھر تریسٹھ ہجری کے آخر میں جب حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے مکہ میں اپنی عمارت قائم کر لی۔ تو یزید کے حکم سے شامی فوج نے مکہ پر چڑھائی کر دی اور حرم میں منجنیق پھینکے۔ جس سے کعبہ میں آگ لگ گئی۔ بیت اللہ کی ایک دیوار بھی شہید ہو گئی۔

یزید کی موت

یزید کی موت کے متعلق مورخین کے الگ الگ اقوال اور روایات ملتی ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ با سند اور صحیح قول یہ ہے کہ شہادت حسین کے واقعہ کے بعد جب یزید اپنے جشن اور تکبر میں مست تھا۔ اس وقت اس نے مکہ پر حملہ کرنے کا حکم جاری کیا۔ یہ سن چونسٹھ ہجری ربیع اول کا مہینہ تھا۔ چند ہی دنوں میں وہ ایک موذی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔

اس کے پیٹ میں خطرناک درد اٹھا جس سے اس کی آنتیں سڑنے لگی اور ان میں کیڑے پیدا ہونے لگے۔ دمشق کے بڑے بڑے طبیب کو بلایا گیا۔ لیکن وہ اس بیماری سے یزید کو شفایاب کرنے میں ناکام ہو جاتے تھے۔ کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے قہر تھا۔ جو اسے قبر تک لے جانے والی تھی۔ آنتوں کے سڑنے کے بعد وہ بستر پر مچھلی کی طرح تڑپنے لگا اور اپنے بستر پر پاؤں مارتا تھا۔

وہ رات رات بھر درد کے مارے چیختا اور اپنی تکلیف کی شدت سے جب چیخیں مارتا۔ تو خنزیر کی طرح آواز نکلتی۔ اگر پانی پیتا تو حلق میں جا کر چھری چلنے جیسی تکلیف محسوس کرتا اور نہ پیتا تو سینے میں آگ لگ جانے والی جلن محسوس کرتا۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق پندرہ ربیع الاول کے دن اسی حالت میں تڑپتے ہوئے وہ واصل جہنم ہوا۔ جب اس کے درباری اس کے قریب گئے۔ تو یزید کی لاش سے بھیانک بدبو آنے لگی۔ جس سے لوگ دور بھاگنے لگے۔ ایک روایت کے مطابق اسے مقام حرین میں دفن کیا گیا۔

Scroll to Top