بیان کیا جاتا ہے کہ کسی ملک میں ایک نیک سیرت بادشاہ کی حکومت تھی۔ وہ شاہی خزانے سے ایک پیسہ بھی اپنی ضروریات کے لیے نہیں لیتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ شاہی خزانہ عوام کا ہے اور عوام پر ہی خرچ کیا جانا چاہیے۔ بادشاہ خود کتابت کیا کرتا اور اس کی آمدنی سے اپنا گزارا کرتا۔
اس کی ملکہ بھی نیک تھی۔ وہ گھر کا سارا کام خود کرتی تھی۔ صفائی کرتی، کھانا پکاتی, کپڑے سیتی غرض گھر کے سارے کام کاج اپنے ہاتھوں سے کیا کرتی۔ ایک روز ہوا کچھ یوں کہ ملکہ کا ہاتھ روٹی پکاتے ہوئے جل گیا۔
جب بادشاہ گھر آیا تو ملکہ نے کہا مجھے ایک خادمہ رکھنے کی اجازت دیں۔ تاکہ وہ گھر کے کام کاج میں میری مدد کرے۔ بادشاہ نے کہا ملکہ تم جانتی ہو کہ میں شاہی خزانے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتا۔ اس لیے کہ یہ عوام کا پیسہ ہے اور میری آمدنی اتنی نہیں کہ میں ایک خادمہ رکھ سکوں۔
کیونکہ میری آمدنی میرے ہاتھ کی کمائی پر ہے۔ اور کتابت سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی کہ میں ایک تمھارے لیے خادمہ رکھ سکوں۔ مزید بادشاہ کہنے لگا کہ اگرچہ میں بادشاہ ہوں مگر حقیقت میں ایک عام غریب آدمی ہوں۔
شاہی خزانے پر صرف عوام کا حق ہے۔ جو صرف عوام کی فلاح کے لیے ہی خرچ ہونا چاہیے۔ اگر آج میں نے اس خزانے سے آج کچھ لے لیا۔ تو کل خدا تعالی کو کیا جواب دوں گا؟ ملکہ تم حلال کی کمائی پر صبر و شکر کرو۔ بروز قیامت خدا تمہیں اس کا بہت اجر دے گا۔
بادشاہ کی ملکہ بھی چونکہ سمجھدار اور نیک خاتون تھی۔ اس لیے پھر سلطان سے اس سلسلے میں کچھ نہ کہا اور گھر کے کام کاج خود کرتی رہتی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ خدا سے دوستی رکھنا ہو تو اپنے ہاتھ سے کماؤ اور حلال رزق سے اپنے اور خاندان کی کفالت کرو۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو بھی ایسی سمجھ آتا فرماۓ۔ آمین