آج مسلمان پریشان اور بے چین ہیں۔ میں عرض کروں گا کہ یہ امور اسلام کے خلاف نہیں ہیں۔ ہمیشہ ایسے مظالم اسلام پر ہوتے رہے ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ پر بھی برابر ایسے پہاڑ توڑے گئے۔ اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ مکہ معظمہ کے مشرکین، مدینہ منورہ کے منافقین اور یہودی۔ اسی طرح دیگر مسلم ممالک کے ساتھ غیر مسلم اقوام ہمیشہ اس قسم کے اعمال کرتی رہی ہیں۔
جس کے بارے میں پہلے ہی سے اشارہ کر دیا گیا ہے “کہ تم ضرور بہ ضرور آئندہ کو اپنے مالوں اور جانوں میں آزمائے جاؤ گے”۔
اور اسی قسم کی دیگر آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو مظالم آج لوگ اسلام پر ڈھا رہے ہیں۔ وہ ہر زمانے میں خدا کے سچے اور حقانی بندوں کے ساتھ کیے گئے ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جس قدر مجھ کو تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ کسی نبی کو نہیں پہنچائی گئیں۔
آپ اس حدیث مبارکہ سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس قدر تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آپ نے کبھی سوچا کہ آج امت مسلمہ پریشانیوں میں کیوں گری ہوئی ہے۔ کوئی بیماری کا شکار ہے، کوئی قرض دار ہے اور تو کوئی خودکشی کا خواہش مند ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف اللہ کی ناراضگی اور نافرمانی ہے۔
جب کوئی شخص اللہ کی رحمت سے دور ہو تو سکون کیسے پا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت پر گناہوں کی وجہ سے مصائب نازل ہوں گے۔ ان میں سے ایک گناہ موسیقی بھی ہے۔ اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے اور اللہ کا فرمان ہے میری یاد روح کی غذا ہے اور سکون کا ذریعہ ہے۔
ارشاد ربانی ہے جو شخص میرا نافرمان بنے گا۔ میری یاد سے اعراض کرے گا میں ضرور بہ ضرور اس کی زندگی کو تلخ کر دوں گا۔ اب جو شخص ٹی وی دیکھ کر یا لڑکیوں کو دیکھ کر سکون حاصل کرنا چاہے گا۔ وہ بیوقوف ہے۔ یہ شخص سمندر میں آگ کو تلاش کرنے والے بے وقوف کی طرح ہے۔
یاد رکھیے ہر گناہ خود دوزخ ہے۔ ہر گناہ سے بندہ اللہ سے دور ہوتا ہے اور وحشت اور بے سکونی کو خود اپنے پاس بلاتا ہے۔ گناہ کے شروع میں تو مزہ آتا ہے۔ مگر اس کے بعد ایک تاریک اندھیری رات ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک بزرگ نے خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور پوچھا آپ کی امت پریشان کیوں ہے؟ فرمایا کہ اس کی تین وجوہات ہیں۔ بے پردگی، گانا سننا سنانا، اور ٹی وی دیکھنا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بخاری شریف کی حدیث ہے۔ میری پوری امت کو معاف کیا جا سکتا ہے۔ مگر اعلانیہ گناہ کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ اب ہم درج ذیل گناہ کر کے کھلم کھلا اللہ سے اعلان جنگ اور بغاوت کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ سکون نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے سب سے بڑے حکیم ہیں۔ آپ نے امت مسلمہ کو سکون کے حصول کا اتنا زبردست نسخہ بتلایا۔
جس کی قیمت بقول ایک اللہ والے کے ایک کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہے۔ وہ نسخہ کیا ہے؟ فرمایا جو سکون حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ دنیاوی اعتبار سے اپنے سے نیچے والوں کو دیکھے۔ اوپر والے کو نہ دیکھے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس موٹر سائیکل ہے تو اسے چاہیے کہ سائیکل والے کو دیکھے۔ گاڑی والے کو حسرت سے نہ دیکھے۔ ایسا کرنا ناشکری کا سبب بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین