بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بھری دوپہر کی بات ہے۔ جب ہر طرف لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ ایسے میں مکہ کے بازار میں پکار ہوتی ہے جسے سن کر لوگ کثیر تعداد میں ایک ہی سمت چل پڑتے ہیں۔ سب کو متوجہ کرنے کے لیے ڈھول بجایا جاتا ہے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ جشن کا سماں ہے لوگ رنگ برنگی جھنڈے ہاتھوں میں لیے چہروں پر شیطانی مسکراہٹوں کے ساتھ بے چینی سے تماشا دیکھنے کے منتظر تھے۔ کچھ لمحے بعد مجمعے کی نظر ایک شخص پہ پڑتی ہے۔ جو زنجیروں میں جکڑ کر وہاں لایا جاتا ہے۔ مجمعے کے افراد اس شخص کو اس حالت میں دیکھ کر خوشی اور مسرت سے نعرے بلند کرتے ہیں۔
ظلم و بے بسی کا عجیب منظر تھا۔ ظالموں نے اس پردیسی کو قتل کرنے کے لیے خاص اہتمام کیا تھا۔ اور طے کیا تھا کہ اسے سولی پر لٹکا کر نیزوں سے ہلاک کریں گے۔ ابھی مجمعے میں خوشی کی شادیانے بج ہی رہے تھے کہ دوبارہ سے ماحول میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ اس قیدی کو لانے والوں نے قیدی سے پوچھا کہ کوئی خواہش ہو تو بتاؤ۔ وہ پوری کی جائے گی۔
مجمعے کے لوگ سوچ رہے تھے کہ شاید قیدی امان مانگے گا یا شاید مال و دولت مانگے۔ مگر قیدی نے کہا کہ میری تو کوئی اور خواہش نہیں ہے۔ البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دی جائے۔ قیدی کو مہلت مل جاتی ہے۔ قیدی وہیں پہ کپڑا بچھا کر قبلہ رخ ہو کر خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنے رب کے ساتھ رجوع ہو جاتا ہے۔
نماز مکمل کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میں نماز میں زیادہ وقت صرف کرتا۔ لیکن پھر تم سمجھتے کہ میں موت سے ڈر گیا ہوں اور قتل کا وقت ٹال رہا ہوں۔ جبکہ ایسا بلکل نہیں۔ اس کے بعد یہ قیدی بڑی دلیری اور شجاعت کے ساتھ سولی کے نیچے کھڑا ہو جاتا ہے۔
بلند آواز سے وہ قیدی چند اشعار پڑھتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ الہی ہم نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔ اب تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میری خبر پہنچا دے۔ دعا مانگنے کے بعد قیدی نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور مجمعے میں موجود ہر شخص کے لیے باآواز بلند آواز بد دعا کی کہ یا رب ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔
اس کے بعد قیدی نے پھندا گلے میں ڈال دیا اور موقع پر ظالموں نے دوبارہ قیدی کو ایک لالچ دیا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تم اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں آرام کرو اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمہاری جگہ سولی پر لٹکا دیا جائے؟ یہ سن کر قیدی نے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ جواب دیا خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں ہے کہ آپ صلاۃ وسلام کے پاؤں میں کانٹا چبھے اور میں آرام سے بیٹھا رہوں۔
بس یہ سننا تھا کہ ظالموں نے سولی کا رسہ کھینچ دیا اور قیدی کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ اس موقع پر جبرائیل امن نے اس قیدی کا سلام رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنچایا۔ اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ ایک جماعت کے درمیان تشریف فرما تھے۔
اچانک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ اور منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے۔ وعلیکم السلام یا خبیب صحابہ کرام حیرت سے آپ صلاۃ وسلام کی طرف دیکھتے ہیں۔ آپ صلاۃ وسلام نے ان کی حیرت باندھ لی اور مخاطب ہو کر فرمایا کہ خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی کے دشمنوں نے قتل کر ڈالا ہے۔
یہ جبرائیل امین مجھے اس کا سلام پہنچانے آئے تھے۔ خبیب رضی اللہ تعالی عنہ مدینے کے ان خوش نصیبوں میں سے تھے۔ جنہیں ہجرت کے قبل اسلام کی سعادت ملی۔ جنگ بدر کے تین سو تیرہ بہادروں میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔ آپ نے اس غزوہ میں مشرکین کے ایک بڑے رئیس حارث بن عامر کو جہنم واصل کیا تھا۔
یہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرا قصور تھا۔ جس پر قریش نے آپ کو دھوکے سے قابو کر کے جس بدکرداری کا مظاہرہ کیا۔ وہ کھلی شیطانیت اور بزدلی تھی۔ ایسا فیل تو عرب کے قومی روایتوں کے بھی خلاف تھا۔ مگر قریش کے مشرکین جوش انتقام میں بالکل اندھے ہو چکے تھے۔
اس لیے حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کو اس بے دردی سے شہید کیا گیا۔ حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے چند دن بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند صحابیوں کو ان کا جسد خاکی مکہ سے لانے کا حکم دیا۔ حضرت زبیر اور حضرت مختار رضی اللہ تعالی عنہ نے مکہ پہنچ کر جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا خاکی سولی سے اتارا۔
تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آپ کا جسم بالکل تازہ ہے۔ آپ کے زخموں سے ابھی تک خون ٹپک رہا ہ۔ے بے شک حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ جو کہ آپ صلاۃ وسلام سے بے حد محبت کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے غزوہ احد میں بھی بہادری اور استقامت کا مظاہرہ کیا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ وہ صحابی ہیں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی سلام بھیجا۔
اللہ تعالی سب کو قلب سلیم عطا فرمائے اور قرآن اور حدیث پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین