فرعون کا عبرتناک انجام

فرعون کا آج سے تین ہزار سال قبل جب مصر میں فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم ڈھائے اور انہیں اپنا غلام بنا لیا۔ تب موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر باپ دادا کی زمین کی طرف لے جاؤ۔ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق موسی علیہ اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام بنی اسرائیلیوں کو لے کر رات کے وقت روانہ ہوئے۔

تو فرعون نے دس لاکھ سواروں کے ساتھ ان کا تعاقب کیا اور حضرت موسی علیہ السلام کے ہمراہیوں کی تعداد تقریبا چھ لاکھ بیس ہزار تھی۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کو لے کر پانی کے کنارے پہنچے۔ جب پلٹ کر دیکھا تو فرعون کے گھوڑوں کا غبار نظر آیا۔

بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ اے موسیٰ تیرے آنے سے پہلے بھی ہم مصائب میں مبتلا رہے اور تیرے آ جانے کے بعد بھی معاملہ وہی ہے۔ سامنے پانی ہے اور پیچھے فرعون ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ مجھے امید کہ خدا تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور تم کو زمین کی حکومت عطا کرے گا۔

حضرت یوشع بن نون نے عرض کیا کہ اب کیا حکم ہے؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ پانی پر عصا ماروں اور خدا نے دریا کو وحی کی تھی کہ وہ موسی علیہ السلام کے عصا مارنے سے اس کی اطاعت کرے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب پانی پر اپنا عصا مارا تو اس میں بارہ راستے پیدا ہو گئے۔

جس میں بنی اسرائیل کے ہر قبیلے کے لیے الگ راستے تھے۔ پس وہ کہنے لگے کہ ابھی راستوں میں کیچڑ ہے۔ ہم ایسے راستے سے نہیں چل سکتے۔ پس خدا نے باد صبا کو بھیج کر راستے خشک کر دیے۔ جب داخل ہوئے تو کہنے لگے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے۔ نامعلوم کے دوسروں کا حال کیا ہوگا۔

تو حضرت موسی علیہ نے اللہ تعالی سے ان کے حالات کی شکایت کی۔ پس وہی نازل ہوئی کہ اپنے عصا سے دائیں بائیں اشارہ کرو۔ چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے ویسا ہی کیا۔ تو پانی کی دیواروں میں ہر دو طرف سے دروازے پیدا ہو گئے کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ جب فرعون ساحل پر آپہنچا تو اس کا گھوڑا پانی میں داخل ہونے سے گھبرایا۔

پس جبرائیل بہ صورت بشر ایک گھوڑی پر سوار ہو کر فرعون کے گھوڑے کے آگے ہو گئے اور پانی میں داخل ہوئے۔ تو فرعون کا گھوڑا بھی پیچھے داخل ہو گیا۔ اس کے بعد فرعون کا لشکر بھی داخل ہونا شروع ہو گیا۔ جب بنی اسرائیل سب کے سب پار ہو گئے اور لشکر فرعون سب کا سب داخل آب ہو گیا۔ تو بحکم خدا پانی آپس میں مل گیا اور لشکر فرعون غرق ہو گیا۔

جب فرعون غرق ہونے لگا تو عذاب الہی کے ڈر سے کہنے لگا کہ میں اسی ایک واحدہ حق پر ایمان لاتا ہوں۔ مگر اللہ تعالی کی طرف سے جواب دیا گیا کہ اب ایمان لاتا ہے۔ حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا۔ تو آج ہم تیرے بدن کو دریا سے نکال لیں گےمفسد تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔

فرعون کی لاش

قرآن کی تعلیم صحیح ثابت ہوئی اور فرعون کی یہ لاش اٹھارہ سو اکاسی کو بحر احمر سے ملی۔ جوکہ آج بھی مصر کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ فرعون نے خدا ہونے کا دعوی کیا اور اللہ تعالی نے اسے غرق کر کے اس کی لاش کو نشان عبرت بنا دیا۔

فرعون کی لاش کی لمبائی دو سو دو سینٹی میٹر ہے۔ فرعون کی لاش بارہ سو پینتیس قبل مسیح میں سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ تین ہزار ایک سو سولہ سال سمندر میں پڑے رہنے کے باوجود یہ گلنے سڑنے سے محفوظ رہی۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن مجید ایک الہامی کتاب ہے۔ سبحان اللہ

فرعون کا اصل نام کیا تھا؟

فرعون کے حقیقی نام کے بارے میں کوئی مظبوط سند تو مجود نہیں۔ جس کی وجہ سے بعض اہلِ علم کا ماننا یہ ہے کہ فرعون ہی اس کا حقیقی نام ہے۔ جب کہ دیگر اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ اس زمانہ میں فرعون ایک لقب تھا۔ جو قوم عمالقہ کے ہربادشاہ کو دیا جاتا تھا۔ اس حساب سے فرعون کا حقیقی نام”ولید بن مصعب بن ریّان” تھا۔ جبکہ بعض اہلِ علم کی کتابوں میں فرعون کو “قابوس” نام بھی دیا گیا ہے۔

ریفرنس

یوٹیوب چینل

Scroll to Top