بیان کیا جاتا ہے کہ روم کے ایک جنگجو بہادر نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں مسلمانوں کی ایک جماعت کو قید کر لیا اور شاہ روم سے بیان کیا کہ مسلمانوں میں ایک شخص نہایت قوی اور مہیب قسم کا انسان ہے۔ جس کو دیکھ کر بھی خوف معلوم ہوتا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ روم نے اس شخص کو دیکھنے کے لیے طلب کیا۔
اس زمانے کے دستور کے مطابق شاہ روم کے سامنے زنجیر لگی ہوئی ہوتی تھی۔ جس کی وجہ سے باہر سے آنے والے کو بادشاہ کے سامنے جھک کر آنا پڑتا تھا۔ جب اس مرد مومن نے زنجیر دیکھی اور معلوم ہوا کہ اس کے نیچے جھک کر آگے جانا ہوگا۔ تو اس نے بادشاہ کے پاس سامنےجانے سے انکار کر دیا۔ تب شاہ روم نے اس زنجیر کو اٹھانے کا حکم دیا تاکہ وہ شخص اس کے پاس آ سکے۔
جس سے اس کو دیکھنا اور اس سے باتیں کرنا منظور تھا۔ چنانچہ جب وہ شخص بادشاہ کے پاس گیا۔ تو بادشاہ نے اس شخص سے کہا کہ تم ہمارے دین میں داخل ہو جاؤ تاکہ میں اپنی انگوٹھی تم کو پہنا کر روم کی سلطنت عطا کر دوں۔ یہ سن کر اس مرد مومن نے کہا کہ دنیا کا آخر کتنا حصہ تیرے قبضے میں ہے۔ بادشاہ کہنے لگا دنیا کا تقریبا تہائی یا چوتھائی حصہ میرے قبضے میں ہے۔
اس مرد مومن نے جواب دیا کہ اگر پوری دنیا بھی تیرے قبضے میں ہوتی اور تو ایک دن کی اذان کے عوض مجھے دیتا۔ تو میں تب بھی تیری یہ دعوت قبول نہ کرتا۔ جبکہ تو اپنی سلطنت کے عوض میرا ایمان خریدنا چاہتا ہے۔ شاہ روم نے یہ سن کر دریافت کیا کہ اذان کیا چیز ہے؟ تو مرد مومن نے اس کے سامنے اذان کے کلمات پڑھے۔
یہ سن کر شاہ روم سمجھ گیا کہ اس کے دل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سما چکی ہے۔ اس طرح کام نہیں چلے گا۔ یہ سوچ کر اس نے حکم دیا کہ ایک دیگ میں پانی کھلا کر اس شخص کو اس میں ڈال دیا جائے۔ تاکہ کھولتے پانی میں پڑھ کر اس کا کام تمام ہو جائے یا خوف کھا کر اپنے دین سے پھر جائے۔ چنانچہ حکم کی تمیل کی گئی۔
جب اس مرد مومن کو دیگ میں ڈالا گیا تو وہ بسم اللہ پڑھ کر داخل ہوا اور حکم الہی کی برکت سے دوسری جانب سے باہر آگیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں کو اور بھی تعجب ہوا اور اس کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ اندھیری کوٹھری میں اس کو بند کر دیا جائے۔ اور چالیس دن تک سوائے خنزیر اور شراب کے، کوئی چیز اس کو کوٹھڑی میں نہ ڈالی جائے۔
چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی اور جب چالیس روز کے بعد کوٹھری کھولی گئی۔ تو لوگوں نے دیکھا جو کچھ اس میں ڈالا گیا تھا۔ اس میں سے مرد مومن نے کچھ بھی نہیں کھایا۔ تو دریافت کیا گیا آخر تو نے اس میں سے کیوں نہیں کھایا؟ حالانکہ شریعت محمدی میں ایسی ضرورت کے وقت اس کا استعمال جائز ہے۔
مرد مومن نے جواب دیا کہ اگر میں اس میں سے کچھ کھا لیتا تو تم کو خوشی ہوتی۔ میرا مقصد تو تم کو غصہ دلانا ہے۔ پھر بادشاہ اس سے کہنے لگا کہ اچھا اگر تو مجھے سجدہ کر لے تو میں تجھے اور تیرے ساتھیوں کو چھوڑ دوں گا۔ یہ سن کر مرد مومن نے جواب دیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں خدا کے سوا کسی کو سجدہ کرنا درست نہیں ہے۔
اس کے بعد شاہ روم نے کہا کہ اچھا پھر تم میرا ہاتھ چومو کہ میں تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو رہا کر دوں۔ مرد مومن نے جواب دیا کہ ہاتھ کا بوسہ دینا صرف باپ، سلطان عادل اور استاد کے لیے جائز ہے۔ دوسرے کے لیے نہیں۔ پھر شاہ روم نے کہا کہ اچھا میری پیشانی کو بوسہ دو۔ تو اس پر مرد مومن نے جواب دیا کہ ہاں یہ ایک شرط کے ساتھ ممکن ہے۔
بادشاہ نے کہا جس طرح تم کو منظور ہو۔ پس مرد مومن نے اپنی آستین اس کی پیشانی پر رکھی اور اس کو چوم لیا۔ اس نیت سے کہ میں اپنی آستین کو بوسہ دے رہا ہوں۔ اس کے بعد بادشاہ نے اس مرد مومن کو اس کے ساتھیوں کے ساتھ بہت سارا مال دے کر رہا کر دیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھا کہ اگر یہ شخص ہمارے شہر میں ہمارے دین پر ہوتا۔ تو ہم اس کی پرستش کیا کرتے۔
چنانچہ جب وہ شخص مرد مومن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم دیا کہ مال سب کا سب اپنے حصے کے لیے مخصوص نہ کر لو۔ بلکہ اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کے لوگوں کو بھی شامل کر لو۔ یہ سن کر مرد مومن نے اس کی تعمیل کی اور جو عطیہ یا نذرانہ اس کو ملا تھا۔ اس میں سب لوگوں کو شریک کر لیا۔
سبق
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ سچ ہے جو شخص ایمان و اخلاص کے ساتھ اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ اللہ تعالی ہر حال میں اس کی مدد فرماتا ہے۔ چنانچہ ہمیں بھی چاہیے کہ ہر موڑ پر صرف اور صرف اللہ پر نظر رکھیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق فرمائے۔ آمین