حضرت سعید بن جبیر جو کہ ایک تابعی بزرگ تھے۔ ایک دن ممبر پر بیٹھے ہوئے یہ الفاظ ادا کرنے لگے کہ حجاج ایک ظالم شخص ہے۔ ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ آپ میرے بارے میں ایسا گمان کرتے ہیں۔ تو آپ کو دربار میں بلا لیا اور پوچھا کہ کیا تم نے میرے بارے میں ایسی باتیں بولی ہیں۔
تو آپ نے فرمایا بالکل تو ایک ظالم شخص ہے۔ یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا اور آپ کے قتل کے احکامات جاری کر دیے۔ جب آپ کو قتل کے لیے دربار سے باہر لے کر جانے لگے۔ تو آپ مسکرا دیے۔ حجاج کو ناگوار گزرا اس نے پوچھا کیوں مسکراتے ہو۔ تو آپ نے جواب دیا کہ تیری بیوقوفی پر جو اللہ تجھے ڈھیل دے رہا ہے۔ اس پر مسکراتا ہوں۔
حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے کر دو۔ جب حجاج نے خنجر آپ کے گلے پر رکھا۔ تو آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا۔ “اے اللہ میرا چہرہ تیری طرف ہے تیری رضا پہ راضی ہوں۔ یہ حجاج نہ موت کا مالک ہے اور نہ زندگی کا”۔
جب حجاج نے یہ سنا تو بولا کہ اس کا رخ قبلے کی طرف سے پھیر دو۔ جب قبلے کی طرف سے رخ پھیرا تو آپ نے فرمایا کہ یا اللہ رخ جدھر بھی ہو تو ہر جگہ موجود ہے۔ مشرق و مغرب ہر طرف تیری حکمرانی ہے۔ میری دعا ہے کہ میرا قتل اس کا آخری ظلم ہو۔ میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا۔
جب آپ کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو قتل کر دیا گیا. اور اتنا خون نکلا کہ دربار تر ہو گیا۔ ایک سمجھدار بندہ بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ہے۔ جب کوئی خوشی خوشی مسکراتا ہوا اللہ کی رضا پر راضی ہو۔