زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ جانیں

کیا آپ نے کبھی جہاز یا ٹرین کا سفر کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا ہے کہ سفر جہاز کا ہو یا ٹرین سے ہر سفر تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے۔ اس سفر میں کئی پابندیاں آپ کی ذات پر لاگو کر دی جاتی ہیں۔ جنہیں آپ باہمی رضامندی سے قبول بھی کر لیتے ہیں۔

مثال کے طور پہ آپ کو ایک خاص نشست پر محدود کر دیا جاتا ہے۔ لیکن آپ بلا جبر مان جاتے ہیں۔ آپ کو دوران سفر یہ آزادی نہیں ہوتی کہ آپ اپنی مرضی سے دوران سفر چہل قدمی کرتے ہوئے اندر باہر جا نہیں سکیں۔ بلکہ جہاز کے سفر میں تو آپ کو سیٹ بیلٹ سے باندھ دیا جاتا ہے اور آپ اعتراض بھی نہیں کرسکتے۔

اسی طرح ٹائلٹ کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے باوجود بھی آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ حالانکہ ٹرین کے مقابلے میں ہوائی جہاز کا ٹائلٹ اس قدر تنگ ہوتا ہے کہ خبر ہی نہیں ہوتی کہ کب شروع ہوا اور کب ختم ہی ہو گیا۔ چاہے ایئرپورٹ ہو یا ریلوے اسٹیشن عموما دھکم پیل کی وجہ سے آپ کو تکلیف ضرور پہنچتی ہے۔

لیکن آپ خاموش رہتے ہیں اور زیادہ شور نہیں مچاتے۔ کبھی سخت سردی اور کبھی چل چلاتی دھوپ۔ مناسب انتظام نہ ہونے کے باوجود سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کبھی کوئی مسافر اس کی بھی شکایت نہیں کرتا اور نہ ہی آپ نے آج تک کوئی ایسی مثال سنی ہو گی کہ موسم کی سختی سے بچنے کے لیے کسی مسافر نے ریلوے اسٹیشن پر کوئی کمرہ بنایا ہو۔

تو میرے دوستو آخر کیوں لوگ اس طرح کی عمارت کسی ریلوے اسٹیشن پر اپنی آسانی کے لیے تعمیر نہیں کرتے؟ جواب بہت آسان ہے کیونکہ سب جانتے ہیں یہ تکلیفیں عارضی ہیں۔ کسی مسافر کو کیا پڑی ہے کہ عارضی جگہ پر عمارتیں تعمیر کرتا پھرے۔ کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ ہمیں کونسا ہمیشہ اس پلیٹ فارم پہ رہنا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ انتظار گاہ ہے نہ کہ آرام گاہ۔

اس واسطے تکلیف چاہے ٹرین کے سفر میں درپیش ہو یا جہاز کے سفر میں۔ ہر ایک ہنس کر ان تکالیف کو برداشت کر لیتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تکلیفیں عارضی ہیں۔ یہ ٹھکانہ بھی عارضی ہے اور آگے منزل ہے۔ جس پر پہنچ کر آرام ہی آرام ہے۔ تو میرے دوستو ذرا سوچیے کہ کیا یہ دنیا ریلوے اسٹیشن کی طرح نہیں ہے؟ کیا یہ عارضی ٹھکانہ نہیں ہے؟ ہمیشہ ہمیں یہیں رہنا ہے یا ہماری منزل کہیں اور ہے؟

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ جو زندگی آپ گزار رہے ہیں۔ وہ چاہے بیس برس کی ہو یا ساٹھ برس کی۔ ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ جیسے دنیا میں آئے ہوئے ہمیں ابھی چند لمحے ہی ہوئے تھے اور ہم زندگی کے کئی سنگ میل عبور کر آئے ہیں۔ کیا آپ کو ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ سال پلک جھپکتے ہوئے گزر رہے ہیں۔

تو سوچیے کہ کہیں اس دنیا کا سفر ایسا سفر تو نہیں جسے منظر سمجھ کر ہم اس کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس کی زبائش میں اتنے مگن ہیں کہ اب تو گاڑی چھوڑ جانے کا خوف بھی ہمارے دل سے نکل چکا ہے۔ میرے محترم عزیزو! یہ دنیا بھی ایک پلیٹ فارم کی طرح ہے اور ہم اس کے مسافر ہیں۔

ہم نے ایک نا ایک دن یہ پلیٹ فارم ضرور چھوڑنا ہے اور اپنی آخری منزل کی طرف جانا ہے، یعنی قبر میں۔ تو مسئلہ یہ ہے کہ وہاں رہنے کے لیے کیا ہمارے پاس سامان موجود ہے؟ وہاں رہنے کے لیے ہم اپنے ساتھ کیا سامان لے جا رہے ہیں کہ ہم خالی ہاتھ ہیں؟

اس بارے میں غور ضرور کیجیے گا۔ اگر ہم اپنے آپ پہ نظر دوڑائیں۔ تو ہم اس عارضی دنیا میں رہنے کے لیے دھڑا دھڑ مال جمع کر رہے ہیں۔ پیسے بنا رہے ہیں، گھر تعمیر کر رہے ہیں، لیکن ہم بھول چکے ہیں کہ یہ تو عارضی ٹھکانہ ہے۔ اصل ٹھکانہ تو کہیں اور ہے۔ اللہ ہم سب کو سمجھنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Scroll to Top