حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر تھے۔ آپ کو موسیٰ کلیم اللہ اس لیے کہا جاتا تھا کہ آپ اللہ تبارک و تعالیٰ سے کوہ طور پر جا کر باتیں کیا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کا ایک امتی تھا جو بہت زیادہ غریب تھا۔ اس کے گھرکئی کئی روز فاقے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ اس کی ملاقات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی۔ وہ کہنے لگا اے موسیٰ علیہ السلام آپ کلیم اللہ ہے۔ جب اس بار آپ کوہ طور پر اللہ سے ملاقات کو جائیں گے۔
تو آپ میری طرف سے اللہ تعالیٰ کو عرض کریں کہ میری آنے والی زندگی کا سارا رزق مجھے ایک ہی بار میں عطا کر دے۔ تاکہ میں اچھی طرح زندگی گزار سکوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی فریاد اللہ کی خدمت میں پیش کر دی۔ اللہ تعالی نے اس کی فریاد قبول فرما دی اور اس کو چند بھیڑ بکریاں، گندم اور کچھ مزید چیزیں عطا کر دی۔
اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام اپنے روزانہ کے کاموں میں لگ گئے۔ پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کو وہ بندہ یاد آگیا۔ آپ علیہ السلام نے سوچا کہ پتا تو کروں کہ اس کا کیا بنا۔ جب اس کے گھر پہنچے تو آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ اس نے عالی شان مکان بنایا ہوا تھا۔
اس کے گھر میں مہمانوں کا رش لگا ہوا تھا۔ دسترخوان بچھے ہوئے تھے۔ انواع و اقسام کے کھانے رکھے ہوئے تھے۔ سب کھا پی کر الحمدللہ کہہ کر مزے اڑا رہے تھے۔ حضرت موسی علیہ السلام یہ منظر دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے۔
کچھ دنوں کے بعد کوہ طور پر اللہ سے ملاقات کی۔ تو اللہ پاک سے فرمایا اے پروردگار عالم آپ نے اس بندے کو جو رزق دیا تھا، وہ تو بہت کم تھا۔ لیکن آج اس بندے کے پاس کئی زیادہ نعمتیں ہیں۔ یا اللہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ بے شک آپ خوب جانتے ہیں۔
اللہ تعالی نے فرمایا اے موسی بے شک وہ اس رزق کو اپنی ذات پر استعمال کرتا۔ تو اس کا رزق بس وہی تھا۔ جو اس کو ہم نے دیا تھا۔ میرے اس بندے نے میرے ساتھ نفع کی تجارت کی ہے۔ موسی علیہ السلام نے فرمایا اے میرے پروردگار! یہ نفع کی تجارت کیا ہوتی ہے؟
رب العالمین فرماتے ہیں میرے بندے نے مہمانوں کو کھانا کھلانا شروع کیا۔ میرے راستے میں خرچ کرنے کو اپنا فرض جانا۔ غریبوں، مسکینوں کے لیے دسترخوان بچھا دیے اور میرا جو دستور ہے جو میری راہ میں ایک روپیہ خرچ کرتا ہے۔ میں اس کو دس گنا زیادہ دیتا ہوں۔ کیونکہ مجھ سے تجارت میں اس کو نفع زیادہ ہو گیا۔ اس لیے اس کے پاس مال و دولت بے تحاشہ ہو گیا۔
سبق
اللہ پاک فرماتا ہے “اے میرے بندے تو میری راہ میں ایک روپیہ خرچ کر میں تجھ کو دس گنا زیادہ دوں گا”۔ لیکن ہمارا ایمان اورٹوٹا پھوٹا یقین یہ ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں دینے سے کتراتے ہیں۔ جب کوئی سوالی ہم سے سوال کرتا ہے۔ تو ہم اپنی جیب میں نوٹوں کی بجائے سکے تلاش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین آمین