منقول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک دفعہ ایک فرشتے سے ملاقات کی۔ اس سے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ میں ملک الموت ہوں۔ آپ نے پوچھا کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تم اپنی وہ صورت مجھے دکھاؤ۔ جس سے تم مومنوں کی روح قبض کرتے ہو۔
کہا اچھا میری جانب سے ذرا منہ پھیر لیجیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے منہ پھیر لیا۔ پھر جب نظر کی تو دیکھا کہ ایک خوبصورت اور خوش لباس حسین نوجوان ہے۔ جس کے بدن سے خوشبو آ رہی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اگر مومن تم کو بغیر حسن و جمال کے نہ دیکھے۔ تو اس کے لیے یہی بہتر ہے۔ پھر کہا کہ کیا ممکن ہے کہ تم مجھے اپنی وہ صورت دکھاؤ۔ جس سے تم فاجروں کی روح قبض کرتے ہو۔ ملک الموت نے کہا کہ آپ اس کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا میں دیکھ سکتا ہوں۔ کہا بہتر ہے کہ میری جانب سے آپ منہ پھیر لیجیے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے نگاہ کی۔ تو ایک مرد سیاہ شکل، سیاہ لباس میں دیکھا۔ جس کے بال جسم پر کھڑے ہیں اور بدبو آ رہی ہے اور اس کے منہ اور ناک سے آگ اور دھواں نکل رہا ہے۔
پس حضرت ابراہیم علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو ملک الموت سورۃ اول میں نظر آئے۔ فرمایا اے ملک الموت اگر فاجر تم کو اسی صورت میں دیکھے تو اس کے عذاب کے لیے یہی کافی ہے
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ایک سو پچھتر سال کی تھی۔ معتبر حدیث میں منقول ہے کہ حضرت سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اے ابراہیم آپ ضعیف ہو گئے ہیں۔ خدا سے دعا کیجیے کہ ایک فرزند عطا فرمائے۔ جس سے ہماری آنکھیں روشن ہوں۔
کیونکہ خدا نے آپ کو اپنا خلیل قرار دیا ہے۔ اگر چاہے گا تو وہ آپ کی دعا مستجاب کرے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا سے دعا کی کہ ان کو ایک فرزند عطا فرمائے۔ خدا نے ان پر وحی فرمائی کہ ہاں ایک عقل مند لڑکا تمہیں عطا کروں گا۔ ابراہیم علیہ السلام اس خوشخبری کے تین سال تک منتظر رہے۔
پھر خدا کی طرف سے وہ موقع آیا کہ جب حضرت سارہ نے کہا کہ اے ابراہیم علیہ السلام آپ ضعیف ہو گئے ہیں اور آپ موت کے قریب ہونے کو ہیں۔ آپ ایسا کریں کہ خدا آپ کی موت میں تاخیر کرے اور عمر دراز کرے تاکہ آپ میرے ساتھ لمبی زندگی گزاریں۔ تو زیادہ بہتر ہو۔
ابراہیم علیہ السلام نے خدا سے سوال کیا جیسا کہ حضرت سارہ نے التماس کی تھی حق تعالی نے ان کو وحی کی کہ جس قدر چاہو تم کو زندگی عطا کر دوں۔ حضرت ابراہیم نے حضرت سارہ کو خبر دی۔ انہوں نے کہا خدا سے دعا کیجیے کہ جب تک آپ خود موت کے طالب نہ ہوں۔ آپ کو موت نہ آئے۔
ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی اور حق تعالی نے مستجاب فرمائی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی مقبولیت کی خبر حضرت سارہ سے بیان کی۔ تو حضرت سارہ نے کہا خدا کا شکر کیجیے اور کھانا پکوائیے اور فقیروں اور اہل حاجت کو تقسیم کیجیۓ۔
ابراہیم علیہ نے دعوت عام کی جب لوگ حاضر ہوئے۔ تو ان میں ایک کمزور نابینا بوڑھا شخص بھی تھا۔ جس کے ساتھ اس کو سہارا دینے کے لیے ایک شخص بھی تھا۔ وہ دسترخوان پر بیٹھا جب وہ لقمہ اٹھا کر منہ میں لے جانا چاہتا۔ تو اس کا ہاتھ ہل جاتا اور لقمہ داہنے سے بائیں ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ لقمہ اس کی پیشانی پر جا لگا۔
اس کے ساتھی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے منہ تک نوالہ پہنچایا۔ پھر اس نابینا نے دوسرا نوالہ لیا۔ اس کا ہاتھ کانپا اور لقمہ اس کی آنکھوں تک جا پہنچا۔ ابراہیم علیہ السلام کی نگاہ اسی کی جانب تھی۔ آپ کو یہ حال دیکھ کر حیرت ہوئی اور اس کے ساتھی سے اس کے اس حال کا سبب دریافت کیا؟
اس نے کہا آپ اس مرد کا جو حال ملاحظہ کر رہے ہیں یہ کمزوری اور بڑھاپے کے سبب سے ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل میں سوچا کہ میں بھی اگر بہت بوڑھا ہو جاؤں گا۔ تو اسی مرد کی طرح ہو جاؤں گا۔ پھر آپ نے دوبارہ خدا سے دعا کی کہ خداوندا میری موت کا وہی وقت بہتر ہے۔ جو میرے لیے پہلے تو مقرر کر چکا تھا۔
کیونکہ اس حال کو مشاہدہ کرنے کے بعد مجھے زیادہ عمر کی ضرورت نہیں ہے۔ حدیث معتبر میں حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب خدا نے چاہا کہ ابراہیم علیہ السلام کی روح قبض کرے۔ تو ملک الموت کو ان کے پاس بھیجا۔ کہا السلام علیک یا ابراہیم آپ نے سلام کا جواب دیا۔
فرمایا کیا تم اس لیے آئے ہو کہ اپنے اختیار سے مجھے آخرت کو لے چلو یا موت کی خبر لائے ہو۔ ملک الموت نے کہا کہ جی میں اسی لیے آیا ہوں اور آپ کو آپ کی خواہش سے خدا کی ملاقات اور عالم قدس کی جانب دعوت دیتا ہوں۔لہذا قبول کیجیے۔
ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کبھی تم نے دیکھا ہے کہ دوست اپنے دوست کو مار ڈالے۔ ملک الموت واپس گئے اور کہا کہ خداوندا کریم تو نے سنا جو کچھ تیرے خلیل ابراہیم علیہ السلام نے کہا؟
پھر تعالٰی نے ان کو وحی کی کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ اور کہو کہ کبھی تم نے دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کی ملاقات کو نا پسند کرے۔ دوست وہ ہے جو اپنے دوست کی ملاقات کا آرزو مند ہو۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام راضی ہو گئے اور جب آپ علیہ السلام مناسک حج سے فارغ ہو کر شام کی جانب واپس گئے۔ تو وہیں آپ کی روح مقدس عالم قدس کی جانب روانہ ہوگئی۔