بنی اسرائیل کے ٩٩ افراد کے قاتل کی توبہ کا واقعہ

بخاری و مسلم میں بنی اسرائیل کے ایک قاتل کا واقعہ نقل کیا گیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے ہاں توبہ کی قبولیت سے متعلق صحابہ کرام کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک قاتل کا نہایت خوبصورت اور ایمان افروز واقعہ بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص چوری، ڈکیتی اور قتل میں بہت مشہور تھا۔

اور نہایت معمولی سی بات پر قتل کر دیتا تھا۔ ہوتے ہوتے اس کے ہاتھ سے ننانوے افراد کا قتل ہو چکا۔ اس کے بعد اس کے دل میں احساس پیدا ہوا کہ مجھے بھی تو اللہ کے ہاں جانا ہے۔ چنانچہ یہ فکر بڑھتا رہا اور لوگوں سے معلومات کرتے ہوئے۔ سرگدا پھرنے لگا کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں؟

کسی عالم شخص سے ملاقات کی فکر ہوئی کہ معلوم کیا جائے کہ ایسے شخص کی توبہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اسی حوالے سے لوگوں نے ایک عابد شخص کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ اس شخص نے اس کے پاس جا کر مسئلہ معلوم کیا۔ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے اور کیا میری مغفرت ہو سکتی ہے؟

جب کہ میں نے ننانوے انسانوں کی جان ماری ہے۔ تو اس عابد شخص کو اس مسئلے کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں تھا۔ تو اس نے اپنی عقل سے قیاس آرائی کی کہ جو آدمی ننانوے انسانوں کی جان مار سکتا ہے۔ اس کو مغفرت کہاں سے ہو گی۔

چنانچہ اس نے کہہ دیا کہ تیری توبہ قبول نہیں ہوگی۔ تو اس شخص نے غصے اور جلال میں آ کر اس کو بھی قتل کر کے سو کا ہندسہ مکمل کر دیا کہ جب میری توبہ قبول نہیں ہونی تو تجھے بھی ختم کر کے سو پورے کر دیتا ہوں۔

چنانچہ اس نے سو کا ہندسہ مکمل کر دیا۔ مگر اس کے دل میں پھر بھی یہ خیال تھا کہ میری مغفرت کی کوئی نہ کوئی شکل ضرور موجود ہو گی۔ اس لیے اس نے لوگوں سے پھر معلومات کا سلسلہ جاری کر دیا کہ روئے زمین میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ وہی میرے مسئلے کا حل بتا سکتا ہے۔

آخر لوگوں نے اس کو بتلایا کہ فلاں جگہ ایک عالم رہتا ہے۔ اس سے جا کے معلوم کرو۔ چنانچہ اس نے اس عالم صاحب کے پاس جا کر اپنی زندگی کی ساری کارگزاری سنائی اور سو آدمیوں کو کس طرح سے قتل کیا۔ سارا کارنامہ سنا دیا۔

معلوم کیا کہ اب بتلائیے کہ میری توبہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں؟ کیا اللہ کے ہاں مجھ جیسے گناہ گار کے لیے بھی مغفرت کا کوئی خانہ ہے؟ تو اس عالم صاحب کو چونکہ علم تھا۔ تو اس نے بتلایا کہ تیرے گناہ معاف کرنے میں اللہ کے ہاں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اللہ کی رحمت کا سمندر تجھ جیسے گناہ گاروں کے گناہوں سے بہت بڑا اور بہت وسیع ہے۔

چنانچہ اس عالم صاحب نے اسے مشورہ دیا کہ تم فلاں جگہ سفر کر کے جاؤ۔ وہاں کچھ اللہ کے بندے رہتے ہیں۔ ان کا مشغلہ صرف اللہ کی عبادت ہے۔ ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرو اور نادم ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ انشاءاللہ تمہاری مغفرت ہو جائے گی۔

جب اس شخص نے آدھا راستہ طے کر لیا۔ تو ملک الموت آگئے۔ اب اس کی روح لے جانے کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ آسمانوں سے رحمت کے فرشتے بھی آئے اور عذاب کے بھی۔ رحمت کے فرشتے کہنے لگے اس کی روح لے جانے کا حق ہم کو ہے۔ اس لیے کہ یہ سچے دل سے تائب ہو کر عبادت کے لیے جا رہا ہے۔

عذاب کے فرشتے کہنے لگے کہ اس کی روح لے جانے کا حق ہم کو ہے۔ اسی لیے کہ اس شخص نے کبھی کوئی نیکی کا کام ہی نہیں کیا۔ اسی دوران آسمانوں سے ایک فرشتہ آیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنے والا فرشتہ حضرت جبرائیل امین تھے۔

چنانچہ اس فرشتے نے تشریف لا کر ان دونوں طرح کے فرشتوں کے درمیان یہ فیصلہ کیا کہ دونوں طرف کی مسافت ناپ کر کے دیکھ لو۔ جہاں سے آ رہا ہے اس کی مسافت قریب ہے یا جہاں جا رہا ہے وہاں کی مسافت۔ لہذا جہاں کی مسافت قریب ہو اس شخص کو وہاں والوں میں شمار کر دیا جائے۔

چنانچہ دونوں طرف کی زمین ناپ کر دیکھی گئی۔ تو جہاں جا رہا تھا وہاں کی مسافت جہاں سے آ رہا تھا اس کے مقابلے میں صرف ایک بالشت قریب ہے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ مقامی مصیحت سے مقام عبادت صرف ایک بالشت قریب ہے۔ اسی لیے رحمت کے فرشتوں کو اس کو لے جانے کا حق حاصل ہوا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مغفرت کا اعلان ہو گیا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم سے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اس شخص کے پاس جب ملک الموت آیا۔ تو وہ شخص سینے کے بل اس سرزمین کی طرف گھسیٹتا چلا گیا۔

حدیث قدسی

حدیث قدسی میں آتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں۔ اور وہ جہاں بھی یاد کرے میں اس کے ساتھ ہوں۔ باخدا اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔ جتنی خوشی تم میں سے کسی ایسے شخص کو ہوتی ہے۔ جس کا جانور بیابان میں گم ہو کر پھر اسے مل جائے۔

اور جو شخص ایک بالشت میری طرف آتا ہے۔ میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جو شخص ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے۔ میں اس کے ایک باع یعنی پھیلائے ہوئے دونوں ہاتھوں کے درمیان کی مسافت کے قریب جاتا ہوں۔ اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے۔ تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔

حاصل

انسان جب بھی سچے دل کے ساتھ توبہ کرے گا۔ تو اللہ تعالی ضرور قبول فرمائے گا۔ انشاءاللہ یہ واقعہ خصوصا ان حضرات کے لیے حوصلہ افزائی اور معاونت کا سبب ہے۔ جو کہ بڑے بڑے گناہ کر کے اب مایوسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

کیونکہ شیطان انہیں مایوس کرتا ہے۔ بہرحال گناہگار کو شیطان کی باتوں میں آ کر مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اللہ کی رحمت سے اچھی امید رکھ کر سچی توبہ کے ذریعے اپنے آپ کو پاک و صاف کر لینا چاہیے۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ملتے ہیں اگلی ویڈیو میں تب تک کے لیے اللہ حافظ

Scroll to Top