بنی اسرائیل کے لوگ بندر کیوں بن گئے؟

بنی اسرائیل کی وہ قوم جو بندر بن گئی۔ یہ واقعہ حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد میں پیش آیا۔ جب ایک قبیلے نے قوم بنی اسرائیل سے علیحدہ ہو کر دریا کے کنارے اپنے رہنے کے لیے مکان بنا لیے اور وہیں آباد ہوگئے۔ ان لوگوں نے اکثر کام احکام تورات کے خلاف شروع کر دیے تھے۔ ان میں ایک یہ بھی تھا کہ وہ ہفتے کے دن مچھلی کا شکار نہ کیا کریں اور نہ ہی دنیا کی کوئی خرید و فروخت کریں۔

ان لوگوں نے کوئی پرواہ نہ کی اور اپنی من مرضی سے کام لینے لگے۔ جب اس قوم نے اللہ تعالی کی نافرمانی شروع کی تو پھر ان کی آزمائش کے واسطے اللہ تعالی نے دریا کی مچھلیوں کو حکم دیا کہ ہفتے کے دن دریا سے نکل کر ساحل پر آ کر اپنے کھیل کود میں مشغول رہیں اور باقی دنوں میں دریا میں جا رہے ہیں۔

پس اللہ تعالی کے حکم سے مچھلیاں ہفتے کے دن دریا سے نکل کر کنارے پر آ کر پھرتی رہتی اور ہفتے کے علاوہ دوسرے دنوں میں دریا کے اندر چلی جاتیں۔ آخر یہودیوں نے ان کو دیکھ کر لالچ سے ایک چال چلی کہ انہوں نے دریا کے کنارے پر نہر کھود کر وہاں اپنے جال ڈال دیے۔ کیونکہ ہفتے کے دن مچھلی دریا سے آکر کھیل کود کے بعد دوبارہ دریا میں واپس چلی جاتی تھی۔

آخر وہ سب ہفتے کے دن نہر میں جال ڈال کر رکھتے اور صبح اٹھ کر اتوار والے دن مچھلی کو اپنی ضرورت اور آرزو کے مطابق پکڑ کر کھا لیتے۔ اپنی بڑی دانشمندی سے کام لے کر اللہ کو چمکا دینا چاہ رہے تھے۔ لیکن اللہ تو ان کی تدبیروں سے خوب آگاہ تھا کہ وہ جیسا کر رہے تھے۔ وہ اپنے لیے عذاب الہی کو دعوت دے رہے تھے۔

ان لوگوں میں تین فرقے بن٦ گئے۔ ایک تو ان میں وہ لوگ تھے جو شکار کرتے تھے، دوسرے لوگ وہ تھے جو باز آ گئے تھے اور دوسروں کو نافرمانی سے برابر منع کرتے رہے تھے اور تیسرے وہ تھے جو منع کرنے سے تھک گئے تھے اور منع کرنا چھوڑ دیا تھا۔

تو اللہ کے عذاب کا دن آ پہنچا ایک دن صبح کو اٹھے تو دوسروں کی آواز نہسنی۔ تو دیوار پر چڑھ کر دیکھا کہ ہر گھر میں بندر ہی بندر نظر آ رہے ہیں اور ان کی کیفیت یہ تھی کہ وہ آدمی کو پہچان کر اپنے قرابت والوں کے پاؤں پر اپنا سر رکھتے اور پاؤں چاٹنے لگتے۔

بلآخر وہ اپنے برے حال سے تین دن میں سب کے سب مر گئے۔ تو مسلمانوں نافرمانی کے سبب اللہ تعالیٰ کے حکم سے بنی اسرائیل کے چہروں کو مسخ کیا گیا یعنی ان کی شکلیں بندروں جیسی ہو گئی اور ہم لوگ چونکہ خاتم النبیین کی امت میں سے ہیں۔

اس لیے زمانے میں گناہوں کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہمارے چہرے مسخ نہیں کیے جا رہے۔ لیکن یاد رہے کہ قیامت کے دن اس نافرمانی کی سزا ذلت مسخ سے کم نہ ہو گی۔

Scroll to Top