بیان کیا جاتا ہے کہ کسی ولی خدا کے زمانے میں ایک شخص بہت زیادہ گناہ گار تھا۔ جس نے اپنی تمام عمر لہو و لعب اور بیہودہ چیزوں میں گزاری اور آخرت کے لیے کچھ بھی زادے راہ اکٹھا نہ کر سکا۔ نیک لوگوں نے اس سے دوری اختیار کر لی تھی اور وہ بھی نیک لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتا تھا۔
عمر کے آخری حصے میں جب اس نے اپنے کارناموں پر نگاہ ڈالی اور اپنی عمر کا جائزہ لیا تو اسے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئی۔ کیونکہ اسے اپنے دامن میں کوئی بھی نیک عمل نظر نہ آیا۔ یہ دیکھ کر اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ توبہ و استغفار کے ارادے سے بارگاہ الہی میں عرض کیا “اے دنیا و آخرت کا مالک اس شخص کے اوپر رحم کر جس کے پاس نہ دنیا ہے اور نہ آخرت”۔
اس کے مرنے کے بعد شہر والوں نے خوشی منائی اور اس کو شہر سے باہر کسی کھنڈر میں پھینک دیا۔ اس موقع پر اس ولی خدا کو عالم خواب میں حکم ہوا کہ اس کو غسل و کفن دو اور متقی پرہیزگاروں کے قبرستان میں دفن کرو۔
عرض کیا اے رب العالم وہ ایک مشہور و معروف گناہ گار و بدکار تھا۔ وہ کس چیز کی وجہ سے تیرے نزدیک عزیز اور محبوب بن گیا اور تیری رحمت و مغفرت کا حقدار بن گیا؟
جواب آیا: اس نے جب اپنے آپ کو بے یارومددگار دیکھا تو ہماری بارگاہ میں گریہ و زاری کی؟ ہم نے اس کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیا ہے۔ کون ایسا دردمند ہے جس کے درد کا ہم نے علاج نہ کیا ہو؟ اور کون ایسا حاجت مند ہے جو ہماری بارگاہ میں روئے اور ہم اس کی حاجت پوری نہ کریں۔
کون ایسا بیمار ہے جس نے ہماری بارگاہ میں گریا و زاری کی ہو اور ہم نے اس کو شفا نہ دی ہو۔ تو میرے عزیز مسلمان بہن و بھائیو انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطی ہر ایک سے سرزد ہو جاتی ہے۔ لیکن خوش قسمت ہے وہ انسان جس نے اپنی حالت کو پہچان لیا اور اپنی زندگی میں ہی سچے دل سے توبہ کر لی۔