بحیثیت مسلمان ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دی گئی تعلیمات بلاوجہ نہیں۔ بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالی کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں جہاں اللہ تعالی نے ہمیں حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے۔ تو وہیں دوسری طرف اپنے بندوں کو ایک جانور کھانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ وہ جانور ہے خنزیر۔
اکثر سوشل میڈیا پر کچھ اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو تنقید اور تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر کار جب خنزیر کو حرام ہی قرار دیا جانا تھا۔ تو اللہ تعالی نے خنزیر کو پیدا ہی کیوں کیا؟
اس دنیا میں کوئی ایسی تخلیق نہیں جس میں اللہ تعالی کی حکمت موجود نہ ہو۔ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ سانپ دنیا کا خطرناک اور زہریلا جانور ہے۔ لیکن اس زہریلے جانور کو بھی اللہ تعالی نے بلاوجہ پیدا نہیں کیا۔ بلکہ سانپ کے زہر کو کینسر کی روک تھام اور مختلف اقسام کی ادویات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں خنزیر کی طرف کہ اللہ تعالی نے اس جانور کو کیوں حرام قرار دیا ہے؟ اور اس کی تخلیق کے پیچھے کون سا راز ہے؟
جس سے آپ کا ایمان مزید تر و تازہ ہو جائے گ۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ایک سو تہتر میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ جس کا مفہوم ہے کہ “اگر اللہ تعالی کی طرف سے تم پر کوئی پابندی ہے تو وہ یہ کہ مردار نہ کھاؤ خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو”۔
خنزیر ایک ایسا جانور ہے جو غلاظت کھانے کے علاوہ بعض حشرات اور کیڑے مکوڑے بھی کھاتا ہے۔ حتی کہ خنزیر ایک ایسا جانور ہے جو اپنی ہی جینڈر کا فضلا بھی کھاتا ہے۔ حقیقت میں یہ زمین کو غلاظت کوڑا اور فضلات سے پاک کرنے والا جانور ہے یعنی خنزیر کی مثال ایسی ہے گویا یہ زمین کا قدرتی وکیوم کلینر ہو اور اسے پیدا کرنے کا مقصد صرف اور صرف زمین کو پاک صاف رکھنا ہے۔
یہ جانور اپنے جسم میں کئی خطرناک جراثیم کو برداشت کر لیتا ہے۔ لیکن اگر یہی جراثیم انسان کے جسم میں منتقل ہو جائے۔ تو انہیں برداشت نہیں کر پاتا۔
اس بات کی تصدیق یہ ہے کہ آج ہزاروں سال بعد میڈیکل سائنس اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ خنزیر کا گوشت انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ جس کے بارے میں چودہ سو سال پہلے اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ذریعے ہمیں آگاہی دی ہے۔